صدر براک اوباما اِس ہفتے جمعرات کو کانگریس کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے متعلق اپنا منصوبہ پیش کریں گے۔
صدر نے اِس تقریر کے لیے بدھ کا دِن تجویز کیا تھا جسے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر جان بینر نے مسترد کردیا تھا۔
اِس پر اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک اداریے میں کہا ہے کہ ایوان کے سپکیر نے جِس حقارت سے صدر کی تجویز کو ٹھکرادیا ہے وہ نہایت ہی قابلِ نفرت ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسے عہدے کے احترام نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں جِس پر جانشینی کے آئینی قاعدے کے مطابق دعویداروں میں اُن کا دوسرا نمبر ہے ۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ صدر اوبامہ ایک مرتبہ پھر حزبِ اختلاف کے خلاف ڈٹ جانے میں ناکام ہوئے ہیں جو معمولی سے معمولی مصالحت کی روادار نہیں ہے۔ اور اِس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ صدر کی تقریر کا موضوع ملک کو درپیش سب سے اہم مسئلہ ہے، یعنی روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور ملک کو ایک اور تباہ کُن کسادبازاری سے بچانا۔
اخبار کہتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ وہائٹ ہاؤس نے اِس کا نوٹس نہ لیا ہو کہ بدھ کو صدارتی نامزدگی کے ری پبلیکن امیدواروں کے درمیان مباحثہ ہونے والا ہے یا پھر جان بوجھ کراِس مباحثے پر اپنی تقریر حاوی کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اگر دونوں میں سے کوئی بھی بات درست ہے تو یہ وہاؤٹ ہاؤس کے لیے شرم کی بات ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ بند کمرے میں مسٹر بینر کے ساتھ جب صدر کے نمائندے ایک بار پھر دباؤ میں آگئے تو اِس سے کسی کو تعجب نہیں ہوا۔ اخبار کہتا ہے کہ ایک دِٕن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لیکن حتمی تصفیئے سے ایک بار پھر صدر کی کمزوری ظاہر ہوگئی ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ معیشت کو بحال کرنے سے متعلق صدر کی تقریر کے مقابلے میں واشنگٹن کے ایک اور سوپ اوپرا کو ترجیح حاصل ہوگئی۔
’ڈیٹرائٹ نیوز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ صدر اوباما دوبارہ منتخب ہونے کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کرسکتے ہیں وہ ہے قومی معیشت میں ایک نئی روح پھونکنا جس کے لیے ایک منصوبہ درکار ہوگا۔
اِس میں زور نجی شعبے کی نشو نما پر دیا جانا چاہیئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابتدا میں معیشت کو مہمیز لگانے کے لیے جو ایک ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے اُن کا ہدف سرکاری منصوبے اور سیاسی ترجیحات تھیں۔ یہ وقت اعتماد سازی کا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ملک کی معیشت بمشکل ایک فی صد کی شرح نمو سے بڑہ رہی ہے جس کی وجہ سے ایک دوسری کساد بازاری کا خطرہ ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، سرمایہ کاروں کو اِس پر اعتماد نہیں کہ معیشت کس سمت جارہی ہے۔ اِسی لیے وہ سرمایہ دبائے بیٹھے ہیں جو روزگار پیدا کرنے والے منصوبوں میں لگنا چاہیئے۔
اخبار نے صدر کے اِس منصوبے کی تائید کی ہے جِس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے پر سرمایہ لگانا ہے، مثلاً سڑکیں، پُل اور رن ویز وغیرہ تعمیر کرنا۔ یہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کا تیز طریقہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اخبار کو صدر کی اس بات سے اتفاق ہے کہ معیشت جِن چیزوں سے اثر انداز ہوتی ہے اُن میں سے بیشتر پر صدر کا کوئی تصرف نہیں ہے۔
البتہ، پالیسیوں سے فرق پڑتا ہے اور صدر کے لیے یہ ممکن ہے کہ پالیسیوں کے ایک صحیح مرکب سے اقتصادی نشو نما کو فروغ دیں۔صدر اوباما کو روزگار پیدا کرنے کا فارمولا وضع کرنا ہوگا۔
’لیبر ڈے‘ کی مناسبت سے ’ٹمپا بے ٹربیون‘ ایک اداریے میں مزدور یونینوں کی رکنیت میں بتدریج کمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ 1983ء میں مزدور یونینوں سے وابستہ مزدوروں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 77لاکھ تھی ،یعنی ہر پانچ مزدوروں میں سے ایک یونین کا رکن تھا۔
لیکن 2009ء تک یہ تناسب گِر کر آٹھ میں سے بھی نیچے گِر گیا اور اگلے سال مزیدآٹھ لاکھ 12ہزار مزدور یونینوں سے الگ ہوگئے۔
اخبار کہتا ہےکہ یونینوں کی پوری تاریخ امریکیوں کے لیے اُجرتوں میں اضافہ کرانے اور کام کرنے کےحالات بہتر بنانے سے عبارت ہے اور لیبرڈے پر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اِ ن تاریخی کارناموں کا احترام کرنا چاہیئے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: