پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی حلیف سیاسی جماعتیں پاناما پیپرز کو ایک بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہوئے اس بات پر مُصر ہیں کہ اس کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا۔
دوسری طرف حزب مخالف کی زیادہ تر جماعتوں کے اس مطالبے میں شدت آرہی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آنے کے بعد وزیراعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف پہلے ہی اس مطالبے کو مسترد کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں انہوں نے جے آئی ٹی کی کارگزاری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بار ے میں سپریم کورٹ میں اپنا موقف پیش کریں گے۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر راہنما خواجہ سعد رفیق نے ہفتہ کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر اس دعوے کا اعادہ کیا کہ پاناما پیپرز پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش ہے کیونکہ ان کے بقول ایک مضبوط پاکستان کسی کو بھی گورا نہیں اور اگر ملک میں ایک مقبول اور منتخب قیادت ہو تو پھر ہی پاکستان ترقی کرے گا۔
سعد رفیق نے کہا "میری تو پہلے دن سے یہ رائے ہے اور میں اپنی رائے پر قائم ہوں کہ پاناما پیپرز ایک باہر سے اسپانسر ہونی والی سازش ہے اور اس کا ہدف پاکستان بھی تھا اور یہ سازش بنانے والوں اور بھی ممالک ہدف تھے"
دوسری طرف حزب مخالف کی جماعتیں حکمران جماعت کے ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہیں کہ پاناما پیپرز کے انکشافات کوئی سازش ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر جمہوریت کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے تو اس کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف قوم کا صاف صاف بتائیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما قمر زمان کائرہ نے ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ " اگر میاں (نواز شریف) صاحب آپ کے خلاف کیس چل رہا ہے اور اس کیس میں آپ کے خلاف ثبوت آ گئے ہیں اور جے آئی ٹی بنی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میرے خلاف سازش ہو گئی ہے اگر سازش ہے۔۔۔ تو بتایا جائے پیپلز پارٹی اس کے سامنے کھڑی ہو گی۔ "
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے چیمبر میں ہونے والے اجلاس میں بعض سیاسی جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی موقف تھا کہ وہ وزیراعظم کے استعفے سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی کریں گے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ دس جولائی کو عدالت عظمیٰ میں پیش کی تھی اور سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت اب پیر کو شروع کرنے جا رہی ہے۔