وائس آف امریکہ نے گزشتہ سال پاکستان میں آزادی صحافت کے موضوع پر انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ سینئر صحافیوں نے بتایا کہ ملک میں سینسرشپ جیسی صورت حال ہے جب کہ کئی تجزیہ کاروں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس موقع پر سیاست اور معیشت کے ساتھ صحافت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ ایک بار پھر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور حکومت کے نمائندوں سے میڈیا کی صورت حال پر انٹرویوز کی سیریز شروع کر رہا ہے۔ کل پہلا انٹرویو سینئر انویسٹی گیٹو رپورٹر احمد نورانی کا کیا گیا۔ آج دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: کئی کالم نگار اور صحافتی تنظیمیں الزام لگاتی ہیں کہ ملک میں سینسرشپ نافذ ہے۔ جیسے حال میں آصف زرداری کا انٹرویو نشر نہیں ہونے دیا گیا۔
جنرل امجد شعیب: زرداری صاحب کے انٹرویو کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ جیل میں ہیں۔ جب آپ جیل میں ہوں تو صرف پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کی اجازت ملتی ہے۔ آپ وہاں جا کر انٹرویو دینے شروع کر دیں۔ امریکہ میں جس شخص کا مقدمہ چل رہا ہو، کیا اسے اجازت ہوتی ہے کہ پرائم ٹائم پر ٹیلی وژن میں آ کر صفائیاں پیش کرے اور اداروں پر الزام تراشی کرے؟ کبھی کہیں ایسی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں میڈیا کی آزادی کا بہت مختلف مطلب لیا گیا ہے۔ ہر طرح کی لاقانونیت کر کے آپ سمجھتے ہیں کہ یہ میڈیا کی آزادی ہے۔ زرداری صاحب کے انٹرویو کو روکے جانے کے سوا میرے خیال میں کوئی اور کارروائی نہیں کی گئی۔
بعض چیزیں ایسی ہیں جو غیر مصدقہ ہوتی ہیں۔ لیکن، میڈیا انہیں نشر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر مریم نواز نے ایک جج کی جو ویڈیو پیش کی، اس کے بارے میں بعض صحافیوں نے تحقیقات کی۔ وہ کہتے ہیں مریم نواز نے وہ ویڈیو پانچ کروڑ میں خریدی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے اس کام میں تعاون کیا۔ میں ایک پروگرام میں شریک تھا جس میں یہ گفتگو ہوئی۔ نو بجے پروگرام ریکارڈ ہوا۔ دس بجے آن ایئر ہوا تو اس میں سے وہ بات نکال دی گئی تھی۔ یہ بات حکومت کے حق میں جاتی تھی۔ کیا وہ ایسی چیزیں سینسر کرے گی؟ میرا خیال ہے کہ پیمرا نے میڈیا کو ہدایات دی ہیں کہ غیر مصدقہ باتیں نشر نہ کریں۔ میرے علاوہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور رانا تنویر بھی اس پروگرام میں شریک تھے۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔
سوال: لیکن کئی صحافی اور اینکر بتاتے ہیں کہ ان کے اداروں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ان کے سوشل میڈیا پر بھی اظہار خیال پر پابندی لگائی جائے۔ کیا ایسا ہوتا ہے؟
جنرل امجد شعیب: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جیسے رانا ثنا اللہ گرفتاری سے پہلے کئی دنوں سے کہہ رہے تھے کہ میں گرفتار کیا جانے والا ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص کو 15 دن یا مہینہ پہلے پکڑا گیا تھا جو منشیات کا ڈیلر تھا۔ اس نے ان کے بارے میں بتا دیا تھا کہ دونوں میں کیا تعلق ہے۔ رانا صاحب جانتے تھے کہ یہ بات سامنے آ سکتی ہے اس لیے انہوں نے پہلے سے کہنا شروع کر دیا۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ظاہر نہ کی گئی دولت ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک خاتون اینکر کے اکاؤنٹ میں 15 کروڑ روپے پڑے ہیں۔ اگر وہ اس کی وضاحت نہ کر سکتی ہوں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اس پیسے کا پتا چل گیا ہے اور انہیں تحقیقات کے لیے بلایا جا سکتا ہے اور وہ واویلا مچانا شروع کر دیں کہ صحافت کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے تو یہ کیا بات ہوئی۔ یہ چالاک لوگ ہیں اور باتیں بناتے ہیں۔
سوال: مین اسٹریم میڈیا پر اپوزیشن رہنماؤں مثلاً مریم نواز اور بلاول بھٹو کے جلسوں اور سرگرمیوں کو نہیں دکھایا جاتا اور پشتون تحفظ موومنٹ کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ میڈیا کی سیلف سینسرشپ ہے؟
جنرل امجد شعیب: پی ٹی ایم کا قصہ اور ہے۔ آپ انہیں دوسروں کے ساتھ نہیں ملا سکتے۔ ایک ہوتی ہے مجرمانہ سرگرمی اور ایک ہوتا ہے بیرونی اشارے پر کام کرنا۔ مثال کے طور پر میاں نواز شریف کا کیس ہے۔ انہوں نے اگر غیر قانونی طور پر کچھ پیسے کمائے ہیں۔ یا مریم نواز، جو سزا یافتہ خاتون ہیں، ان کی سزا معطل ہے کیونکہ ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ آپ انہیں میڈیا پر وقت اور موقع دیں اور وہ فوج اور حکومت کو لعن طعن کریں۔ کیا میڈیا اس لیے ہوتا ہے؟ پیمرا نے بعض اصول بتائے ہیں کہ پاکستان کسی کے ماں باپ کی جائیداد نہیں کہ آپ جو جی چاہے، کرتے رہیں۔ کچھ دائرے ہیں، ان کے اندر رہ کر کام کریں۔ لیکن، یہاں زرد صحافت ہوتی ہے جہاں پیسے لے کر صحافت کی جاتی ہے۔
مریم نواز نے ایک ویڈیو دکھائی جس میں ایک جج نے کہا کہ مجھ پر دباؤ تھا۔ ان ہی جج نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ مجھے پیسوں کی پیشکش کی گئی اور مسلم لیگ ن یا نواز شریف کی طرف سے دباؤ تھا۔ مجھے رشوت کی پیشکش کی گئی۔ لیکن میں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر فیصلہ کیا۔ یہ دونوں موقف ایک آدمی کے ہیں۔ میڈیا میں جن لوگوں کو تکلیف ہے، وہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو مریم نواز نے موقف پیش کیا، وہی ٹھیک ہے۔ وہ دوسرے فریق کی بات ہی نہیں کرتے۔ اگر آپ آزاد صحافی ہیں تو دونوں کے درمیان کہیں سچ ڈھونڈیں گے۔ آپ ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہو کر نہیں کہہ سکتے کہ صرف یہی سچ ہے۔ میں اس پر ایمان لے آیا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک جج کو شراب کی عادت ہے، برے تعلقات کی لت ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے پیسے کی پیشکش ہوئی اور اس نے پیسہ نہیں لیا۔ اس بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے۔ کوئی شخص اخلاق سے گرا ہوا ہے تو کیا صرف اسی بات پر اس کا اخلاق جاگ گیا؟ جب آپ شرابیں پیتے ہیں اور الٹے سیدھے کام کرتے ہیں تو پیسہ تو چاہیے۔ حلال کی تنخواہ آپ کو گھر میں دینی ہے، اس سے کیسے آپ گانے بجانے اور ناچ نچانے کے کام کر سکتے ہیں؟
سوال: پی ٹی ایم کی بات بیچ میں رہ گئی؟
جنرل امجد شعیب: پی ٹی ایم کا قصہ یہ ہے کہ وہ غیر ملکی امداد پر چلنے والی تنظیم ہے۔
سوال: تو پھر اس پر پابندی کیوں نہیں لگا دی جاتی؟
جنرل امجد شعیب: دیکھیں، پابندی لگانے میں بہت مسائل ہیں۔ پابندی لگانا دھماکا خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ، قدم بہ قدم انھیں تنہا کیا جا رہا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی ایم کی پوری تنظیم غیر ملکی امداد پر نہیں چلتی۔ دو تین لوگ ہیں جو اوپر کے لیڈر ہیں۔ جو لوگ نیچے ہیں، ان کے حقیقی مسئلے ہیں۔ ان مسائل کو حل کیے بغیر آپ سب پر پابندی لگا دیں گے تو وہ کوئی حل نہیں۔ جن لوگوں کو گھر چھوڑنا پڑے، دھکے کھائے، واپس آئے، شاید انہیں اچھے گھر نہیں ملے یا گھروں میں ٹوٹ پھوٹ ملی۔ ظاہر ہے کہ اس علاقے کے لوگوں نے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ صرف دو تین لوگوں کا ایجنڈا مختلف ہے، جن کا مقصد انتشار پھیلانا ہے۔ حکومت ان سے نمٹے گی۔ باقی لوگوں کے مسائل حل کرنے ہیں۔ وہ آپ کی ذمے داری ہیں۔
سوال: میجر جنرل آصف غفور ٹوئٹر پر لوگوں سے الجھتے رہتے ہیں۔ کیا آئی ایس پی آر کے سربراہ کو ایسا کرنا چاہیے؟
جنرل امجد شعیب: دیکھیں، بات یہ ہے کہ وہ صرف ردعمل دیتے ہیں۔ ردعمل بعض اوقات جارحانہ ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات اچھا ہو سکتا ہے اور۔۔۔ میں ان کے ہر ردعمل سے متفق نہیں۔ لیکن جواب انہیں ہر صورت میں دینا ہوتا ہے۔ خاموش رہیں گے تو مخالفین کہیں گے کہ فوج نے کچھ نہیں کہا اس لیے ہم نے جو کہا، وہ ٹھیک ہے۔ آصف غفور صاحب کو جواب دینا چاہیے کیونکہ فوج کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ لیکن، ان کے سارے جوابات سے میں متفق نہیں ہوں۔ انہیں ردعمل کے اظہار میں بہتری لانی چاہیے۔