’میں نہیں سمجھتا کہ ریاست کے عہدے داروں کو ٹوئٹر یا فیس بک استعمال کرنا چاہیے۔ یہ غیر سنجیدہ میڈیا ہے۔ جلدبازی میں وسیع پیمانے پر بیانات کو پھیلانا عوام کی خدمت نہیں ہے۔ اس کے لیے میچور انداز میں، بالغ انداز میں، سنجیدگی کے ساتھ ، موضوع پر تفصیل کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے‘۔
یہ صرف میڈیا کا چیلنج نہیں. یہ چیلنج منتخب پارلیمان کا ہے، آزاد عدلیہ کا ہے۔ پاکستان کے میڈیا کی آزادی پارلیمان اور عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ اگر پارلیمان آزاد نہیں، عدلیہ آزاد نہیں تو میڈٰیا کیسے آزاد ہو گا؟
پی ٹی ایم کا قصہ اور ہے۔ آپ انہیں دوسروں کے ساتھ نہیں ملا سکتے۔ ایک ہوتی ہے مجرمانہ سرگرمی اور ایک ہوتا ہے بیرونی اشارے پر کام کرنا۔
اردو میں کوئی ایک ادیب یا شاعر ایسا نہیں جس کی آواز مزاحمتی ہو۔ ترقی پسندوں کے بجائے ادب پر دائیں بازو والوں نے قبضہ جما لیا، ناصر عباس نیر
’’بندوبست کیا جا رہا ہے کہ ملک میں سول سوسائٹی کی کوئی تنظیم نہ رہے، پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نیا قانون لایا جا رہا ہے‘‘
پاکستان میں حقیقی سیاسی سرگرمی نادیدہ طریقے سے بند کردی گئی، میڈیا پر پابندیاں غیر علانیہ ہونے کی وجہ سے قانونی کارروائی نہیں کرسکتے، عابد منٹو
ضیا دور جیسے حالات نہیں ہیں۔ ادیب تب ردعمل دیتا ہے جب انسانی اقدار کو خطرہ ہوتا ہے، سیاسی بصیرت کے بغیر اچھا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا، اصغر ندیم سید
ادارے کی خاطر چپ رہنا پڑتا ہے۔ تاریخ آج کے صحافیوں کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی۔ نئے چینلوں کے آنے سے صحافت کے لیے خطرات پیدا ہو رہے ہیں، عمر چیمہ
پاکستانی میڈیا میں سیٹھ کلچر ہے، ایڈیٹرز کی موثر تنظیم موجود نہیں، ریاست کے کھیل میں میڈیا کے اسٹیک ہولڈر کے طور پر گھسنے کی کوشش سے بگاڑ آیا، اویس توحید
میڈیا مالکان کی بادشاہ گر بننے کی خواہش نے کام خراب کیا، میڈیا بزنس میں آنے والوں کا رول ماڈل لینڈ مافیا کا ڈان ہے
افواج پاکستان کے ترجمان نے ملک دشمن قرار دیا، ’نیکٹا‘ نے ’تھریٹ لیٹر‘ میں نام دیا، اب نوائے وقت گروپ نے خدا حافظ کہہ دیا
اکثر خبر نہیں چھپتی۔ چھپ جائے تو سیکورٹی ادارے گرفتار کرلیتے ہیں۔ جنگجو دھمکیاں دیتے ہیں۔ خبر حساس ہو تو قتل کردیا جاتا ہے
مزید لوڈ کریں