دنیا میں 2022 میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں موت کی سزائیں دیے جانے میں 53 فیصد اضافہ ہوا۔ ایران اور سعودی عرب اس اعتبار سے نمایاں رہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کو جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں انڈونیشیا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ وہ ایشیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک بن گیاہے ۔
ایمنسٹی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں دی جانے والی سزائے موت میں سے 70 فیصد ایران میں دی گئیں جہاں 2021 میں 314ا فراد کو سزائے موت دی گئی۔ جس سے سزائے موت کی تعداد 2022 میں 576 ہو گئی جو اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں 83 فیصد اضافہ ہے ۔
سعودی عرب میں سزائے موت کی تعداد 2021 میں 65 تھی جو 2022 میں تین گنا بڑھ کر 196 ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق کویت،میانمار،فلسطینی علاقوں، سنگاپور اور امریکہ میں بھی 2021 کے مقابلے میں موت کی سزاؤں میں قابل ذکر اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مجموعی طور پر 20 ممالک میں کل 883 افراد کو موت کی سزا دی گئی جب کہ 2021 میں 18 ممالک میں یہ تعداد 579 تھی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رازداری اور پابندیوں پر مبنی ریاستی طرز عمل کے نتیجے میں چین، شمالی کوریا اور ویتنام سمیت متعدد ممالک میں سزائے موت کے بارے میں درست (اور صحیح اعداد و شمار) کا جائزہ متاثر ہوا ہے ۔
ایمنیسٹی کا کہنا ہے کہ 2022 میں انڈونیشیا میں دی گئی 112 نئی سزائے موت میں سے 94 فیصد کا تعلق منشیات کے جرائم سے تھا۔ ایمنسٹی نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں کم از کم 169 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جو کہ ایشیا بحرالکاہل خطے میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ بھارت میں 165 اور پاکستان میں 127 افراد کو یہ سزادی گئی۔
انڈونیشیا میں قتل، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے جرائم کی سزا موت ہے جس کے لیے فائرنگ اسکواڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔انڈونیشیا میں اس وقت 450 سے زیادہ قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں جن میں سزا یافتہ منشیات کے اسمگلروں کی تعداد تقریباً 60 فیصد ہے۔ان میں 18 ممالک کے 88 غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چین، ایران، سعودی عرب اور سنگاپور نے منشیات کے جرائم کے لیے مجموعی طور پر کم از کم 325 افراد کو سزائے موت دی جو 2021 میں ریکارڈ کی گئی تعداد سے دوگنی ہے۔
ایمنسٹی نے کہا کہ گزشتہ سال سزائے موت کو ختم کرنے والے ممالک کی تعداد 112 تک پہنچ گئی جن میں انڈونیشیا کا پڑوسی ملک پاپوا نیو گنی بھی شامل ہے۔ ملائیشیا میں لازمی سزائے موت کے لیے اصلاحات کی جانب بھی اقدام کیے گئے ہیں ۔
اس رپورٹ کی معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔