انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" کے مطابق گزشتہ سال دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت پر عملدرآمد کی تعداد گزشتہ 25 برسوں میں سب سے زیادہ رہی۔
منگل کو جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں تنظیم نے بتایا کہ 2015ء میں 1637 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا جو کہ اس سے پچھلے برس کی نسبت 54 فیصد زیادہ اور 1989ء بعد کسی ایک سال میں ریکارڈ کی گئی یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔
رپورٹ کے مطابق اس کل تعداد کا نوے فیصد صرف تین ممالک، ایران، پاکستان اور سعودی عرب میں ریکارڈ کیا گیا۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ اس ریکارڈ میں چین شامل نہیں کیونکہ وہاں بظاہر ہزاروں ایسے کیسز اس بنا پر ریکارڈ نہیں کیے جا سکے کہ چین ایسی سزاؤں کو ریاستی راز تصور کرتے ہوئے افشا نہیں کرتا۔
یورپی ممالک میں بیلاروس واحد ملک ہے جہاں موت کی سزا رائج ہے جب کہ ویتنام نے اس ضمن میں معلومات فراہم نہیں کیں۔
سعودی عرب میں 158 لوگوں کی سزائے موت پر گزشتہ سال عمل کیا گیا۔ ان میں سے اکثریت کا سرقلم کر کے سزا پر عملدرآمد کیا گیا لیکن بعض کیسز میں مجرموں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ان کی لاشیں عوام کے سامنے پیش بھی کی گئیں۔
ایران میں گزشتہ سال 997 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا جن میں اکثریت منشیات سے متعلق جرائم میں سزا پانے والے مجرموں کی تھی۔
تنظیم کے مطابق ایران میں چار ایسے مجرموں کو بھی سزائے موت دی گئی جن کی عمریں مبینہ طور پر 18 سال سے کم تھیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے مطابق گزشتہ سال 320 مجرموں کو پھانسی دی گئی جو کہ پاکستان میں کسی بھی ایک سال میں دی گئی پھانسیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
پاکستان نے دسمبر 2014ء میں ایک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔
امریکہ کی چھ ریاستوں میں 28 مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا اور یہ تعداد 1991ء کے بعد سے کسی ایک سال میں سب سے کم تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل سیٹھی کا کہنا تھا کہ "شکر ہے کہ سزائے موت پر عملدرآمد کرنے والے ملکوں کی تعداد بہت کم ہے۔"
دنیا کے 102 ملکوں نے سزائے موت کو ختم کرنے کے میثاق پر دستخط کر رکھے ہیں جب کہ گزشتہ سال چار ملکوں نے اس پابندی کو تسلیم کیا تھا۔