امریکہ میں 2016 کا صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے مقابلے میں شامل تمام امیدواروں کے لیے مقابلے کا پہلا میدان پیر کو ریاست آئیووا میں سجا۔
سبھی امیدواروں نے یہ میدان مارنے کے لیے زو ردار مہم چلائی ہے۔ ریاستی دارالحکومت ڈی مائن میں خوب چہل پہل ہے نوجوان، بچے اور بوڑھے سبھی اپنے امیدوار کے جلسوں اور میٹنگز میں حصہ لے رہے ہیں۔ رضا کار کاکس میں حصہ لینے والوں کو معلومات اور سواری فراہم کر رہے ہیں۔
یہ چہل پہل ڈی مائن میں بسنے والے مسلمانوں میں بھی نظر آتی ہے۔ کمال عقیلی تین دہائیوں سے یہاں آباد ہیں۔ وہ سیاست میں حصہ لینے کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور یہاں آنے والے کمیونٹی کے ارکان کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ امریکہ میں سیاسی نظام کا حصہ بنیں اور ووٹ ڈالیں۔
عقیلی ہلری کلنٹن کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ ہلری اور بل کلنٹن کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "امریکہ کو ایک لبرل حکمران کی ضرورت ہے جو تمام عقائد کے ماننے والوں کو اکٹھا کرے نہ کہ انہیں تقسیم کرے"۔
عقیلی کے خیال میں وزیر خارجہ رہتے ہوئے ہلری کلنٹن کو خارجہ پالیسی سے متعلق جو تجربہ حاصل ہوا ہے وہ انہیں مدد دے گا۔
یہاں بسنے والے مسلمانوں کی ترجیح ڈیموکریٹس ہیں۔ بظاہر اس کی وجہ ری پبلکن امیدواروں کی طرف سے مسلم مخالف بیانات ہیں۔
صلاح الدین سید پیشے کے اعتبار سے پیتھالوجسٹ ہیں اور بیس سال سے یہاں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ برنی سینڈرز بہتر امیدوار ہیں اس لیے کہ وہ متوسط طبقے کی زندگی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں وہ طلباٗ کو تعلیم کا حق دینا چاہتے ہیں۔
"برنی نے اپنی پوری مہم میں کسی مخصوص مفاد حاصل کرنے کی تنظیم سے چندہ نہیں لیا۔ ان کے سپر پیکس نہیں ہیں بلکہ ان کی مہم میں چندہ دینے والے عام شہریوں کی تعداد زیادہ ہے جو دو سو ڈالر اور اس سے کم چندہ دیتے ہیں جبکہ ہلری کلنٹن کی مہم میں بڑے بڑے کاروبار اور مالی ادارے چندہ دے رہے ہیں، اس لیے ہلری کے آنے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔"
موجودہ صورتِ حال میں ڈی مائنز میں مسلم ری پبلکن ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ جمال محمد سیاہ فام امریکی مسلمان ہیں، وہ کہتے ہیں امریکہ ماضی میں بھی ایسے ادوار سے گزرا ہے لیکن وہ ڈیموکریٹ کو ہی ووٹ دیں گے چاہے امیدوار کوئی بھی ہو کیونکہ مقصد ڈانلڈ ٹرمپ کو ہرانا ہے۔