کیا افغانستان میں امن کے قیام کا خواب پورا ہو گا یا ابھی یہ محض ایک سراب ہی رہے گا۔ اس بارے میں حتمی طور پر تو ظاہر ہے کہ کسی کے لئے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ماہرین اس بارے میں اپنے تجزئے ضرور دیتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری نے افغان امور کے ماہر عقیل یوسفزیئ اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے چودھری نعمان ظفر سے اس بارے میں گفتگو کی۔
عقیل یوسف زئی کا کہنا تھا اب امریکہ سمیت زیادہ تر جگہوں پر اس بات کا ادراک کرلیا گیا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے جسکے مطابق 2015 سے 2018 کی درمیانی مدت میں 23 ہزار سے زیادہ افغان فوجی اور پولیس اہلکار حملوں میں مارے گئے ہیں اور امریکہ اب تک افغانستان میں جتنا وقت اور سرمایہ لگا چکا ہے اسکے مطابق نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ لیکن اب ایک بار پھر پوری شدت سے امن کے لئے کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد چند ہفتوں میں خطے کے کئ دورے کرچکے ہیں۔ طالبان کا قطر آفس پھر سے سرگرم ہو گیا ہے لیکن ساتھ افغانستان کے اندر طالبان کے حملوں اور افغان افواج اور امریکہ اور نیٹو کی افواج کی جوابی کارروایئوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دوسری جانب مفاہمتی اور مذاکراتی عمل بھی چل رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا افغانستان میں انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بعد مفاہمت کی کوئی صورت نکل سکے گی۔ انہوں نے کہا انہیں تو افغان حکومت یا انتظامیہ اس عمل سے باہر نظر آتے ہیں کیونکہ طالبان ان سے بات کرنے کے لئے بلکل تیار نہیں ہیں تاہم انہوں کہا کہ اشارے مل رہے ہیں کہ کچھ نئے فارمولوں یا آیئڈیاز پر کام ہو رہا ہے اور خطے کی کئی اہم ریاستیں بہ یک وقت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ جیسے پاکستان کا ایک بڑا اور اہم رول سامنے آیا ہے اور سب کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر چین۔ روس اور افغانستان کے درمیان بہت جلد ایک میٹنگ ہونے والی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کے پاس کوئی ایسا فریم ورک، فارمولا یا روڈ میپ ہے جسکی طالبان کو پیشکش کی جائے تو وہ سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ بننے پر تیار ہو جایئں تو اطلاعات یہ ہی ہیں کہ ایسا روڈ میپ موجود ہے لیکن ابھی صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی ہے۔
عقیل یوسف زئی کا کہنا تھا کہ مستقل امن کے قیام کے بغیر امریکی افواج افغانستان سے نکل گئیں تو وہی صورت حال بنے گی جو سابقہ سوویت یونین کے افراتفری میں وہاں سے نکلنے کے سبب پیدا ہوئی تھی
چودھری نعمان ظفر نے بھی اس سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا فوری انخلاء کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق "پاکستانی وزیر اعظم عمران کہہ چکے ہیں افغانستان سے امریکی افواج کا فوری انخلاء افغانستان کی سیکیورٹی کے لئے بہتر نہیں ہو گا۔" امن مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں مناسب پیش رفت ہو رہی ہے اور لگتا ہے کہ بات آگے بڑھ رہی ہے۔