پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جمعرات کی صبح ہونے والے ایک بم دھماکے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 13 افراد زخمی ہو گئے۔
مرکزی شہر کوئٹہ کے علاقے زرغون روڈ پر جس وقت یہ دھماکا ہوا اس وقت وفاقی شرعی عدالت کے جج ظہور احمد شاہوانی کا قافلہ یہاں سے گزر رہا تھا اور بظاہر اس بم حملے کا نشانہ یہی قافلہ تھا۔
دھماکے سے جسٹس شاہوانی تو محفوظ رہے لیکن ان کے قافلے میں شامل پولیس کی ایک گاڑی کو نقصان پہنچا اور اس پر سوار انسداد دہشت گردی فورس کے چار اہلکار زخمی ہو گئے۔
سکیورٹی فورسز اور امدادی کارکنوں نے فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ دھماکا ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا۔
"یہ ایک مصروف سڑک ہے جس کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا، وہ بم نصب کر کے موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے۔ اس دھماکے کا مقصد بلوچستان میں یوم آزادی کی تقریبات کو سبوتاژ کرنا ہے۔ لیکن اس سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور عوام کو "حقیقی معنوں میں" تبدیلی نظر آئے گی۔
اس واقعے کی تاحال کسی فرد یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن بلوچستان میں دہشت گرد گروپوں کے علاوہ علیحدگی پسند تنظیمیں بھی ایسی مہلک کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔
یہ دھماکا ایک ایسے وقت ہوا ہے جب بلوچستان میں پیر کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں ہونے والے بم حملے میں 70 سے زائد افراد کی ہلاکت پر سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔
پیر کو حملہ آوروں نے پہلے ایک وکیل رہنما بلال انور کاسی کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا اور جب ان کی لاش سول اسپتال منتقل کی گئی تو وہاں وکلا اور ذرائع ابلاغ کی ایک بڑی تعداد بھی جمع ہوگئی تو اسی اثنا میں یہاں ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔