افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد میں ایک روز قبل قتل ہونے والی خاتون صحافی کی تدفین کے چند ہی گھنٹوں کے بعد ہی دارالحکومت کابل میں جمعے کو ایک اور صحافی کی پراسرار ہلاکت ہوئی ہے۔
ہلاک ہونے والے صحافی فردین امینی افغانستان میں ایک نجی ٹی وی چینل 'آریانہ' سے منسلک تھے۔
فردین امینی کی ہلاکت معمہ بنی ہوئی ہے۔ افغان صحافیوں کے مطابق مقامی پولیس اسے خودکشی قرار دے رہی ہے۔ جب کہ آریانہ ٹی وی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ صحافی کو اغوا کر کے قتل کیا گیا ہے۔
افغان صحافی حمیم روغانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ 'آریانہ' ٹی وی کے ایک سینئر عہدے دار حسن یار کے بقول فردین امینی کو اغوا کر کے قتل کیا گیا ہے۔
ایک اور سینئر افغان صحافی اکرام شینواری کے مطابق کابل پولیس کا مؤقف ہے کہ فردین امینی نے خودکشی کی ہے۔
کابل پولیس کے مطابق فردین امینی نے تیز دھار پتھر سے اپنا گلا کاٹ لیا تھا۔ انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہیں ہو سکے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی جلال آباد میں ایک نجی ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے منسلک خاتون صحافی ملالئی میوند کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
ملالئی میوند اور ان کے ڈرائیور محمد طاہر پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ گھر سے دفتر جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔
ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے ملالئی میوند کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ مگر کابل اور جلال آباد میں افغان حکام اسے دہشت گردی اور گھات لگا کر قتل کا واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید بھی جاری کی ہے۔
جلال آباد میں جمعے کو وزارتِ اطلاعات اور ثقافت میں ملالئی میوند کے قتل پر ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
خیال رہے کہ ملالئی میوند کا تعلق جلال آباد ہی سے تھا۔ لگ بھگ پانچ سال قبل ان کی والدہ کو بھی نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
ملالئی میوند نے چند روز قبل افغانستان میں صحافیوں پر تشدد کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی تھی، جب کہ گزشتہ برس نومبر میں انہوں نے اسلام آباد سے اغوا ہونے والے خیبر پختونخوا پولیس کے افسر ایس پی طاہر داوڑ پر بھی ایک مفصل رپورٹ شائع کی تھی۔
طاہر داوڑ کی گولیوں سے چھلنی اور تشدد زدہ لاش پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب ملی تھی۔
ملالئی میوند کی والدہ بھی ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک تھیں اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تھیں۔
ملالئی میوند کے قتل کی افغان حکومت، افغانستان میں انسانی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے مذمت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور نیٹو سمیت کابل میں امریکی، برطانوی اور جرمن سفیروں نے بھی اس واقعہ پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں صحافیوں کے تحفظ کے ادارے کے سابق سربراہ نجیف شریفی نے کہا ہے کہ اگر صحافیوں کا قتلِ عام نہ روکا گیا تو افغانستان میں گزشتہ چند برس میں قیامِ امن، تعمیرِ نو اور اداروں کے بحالی کے لیے کیے گئے اقدامات رائیگاں جائیں گے۔
عالمی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے سے منسلک اقبال خٹک نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب افغانستان میں قیامِ امن کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ ان کے بقول یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کسی منظم گروہ کا ہاتھ ہے۔
اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ چند برس کے دوران ایک آزاد میڈیا ابھر کر سامنے آیا تھا، مگر اب میڈیا کو خطرات کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں رواں برس 10 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جب کہ گزشتہ چار برس کے دوران تقریباً 70 صحافی اور دیگر کارکن پر تشدد کارروائیوں بشمول بم دھماکوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔