امریکہ کے محکمہ محنت نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے مزید 21 لاکھ افراد نے اسے بیروزگار ہونے سے متعلق آگاہ کیا ہے۔ اس طرح مارچ سے اب تک ذریعہ آمدن کھونے والے امریکیوں کی تعداد چار کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ضروری نہیں کہ لوگ اسی ہفتے ملازمتوں سے نکالے گئے ہوں۔ گزشتہ ہفتوں میں داخل کی گئی درخواستوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ریاستیں انھیں نمٹا نہیں پارہی تھیں۔ امکان ہے کہ ان درخواستوں کو اب شمار کیا گیا ہے۔
بڑی تعداد میں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا سلسلہ وسط مارچ میں شروع ہوا تھا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ اب تقریباً تمام ریاستوں نے بندشوں میں کمی کردی ہے اور کاروبار کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ لیکن، تجزیہ کاروں کے خیال میں معیشت کو بحال ہونے میں طویل عرصہ لگے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 21 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں 33 لاکھ افراد نے بیروزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دی تھی۔ اس کے بعد ہر ہفتے یہ تعداد بالترتیب 69 لاکھ، 66 لاکھ، 52 لاکھ، 44 لاکھ، 38 لاکھ، 31 لاکھ، 27 لاکھ، 24 لاکھ اور 21 لاکھ رہی۔ اس وقت محکمہ محنت کے ریکارڈ کے مطابق 4 کروڑ 7 لاکھ افراد کے پاس حکومت کی امداد کے سوا آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔
سرکاری اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے ایک چوتھائی سے زیادہ کام کرنے والے بیروزگار ہوچکے ہیں۔ ریاست نیواڈا میں ان کی شرح 26٫7 اور فلوریڈا میں 25 فیصد ہے۔ سب سے بڑی ریاست کیلی فورنیا میں 20٫6 فیصد ورک فورس گھر پر بیٹھی ہے۔
امریکہ میں کرونا وائرس کے کیسز اور ہلاکتوں میں کچھ کمی آئی ہے۔ لیکن رواں ہفتے ہی اموات کی مجموعی تعداد ایک لاکھ تک پہنچی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپریل میں امکان ظاہر کیا تھا کہ امریکہ میں ہلاکتوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 65 ہزار رہی ہے لیکن ان کا اندازہ چند ہفتوں میں غلط ثابت ہوگیا تھا۔
صحت عامہ کے ماہرین بندشوں میں نرمی کی وجہ سے وبا کی لہر میں تیزی آنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ جس قدر معاشی نقصان سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن ختم کیے جارہے ہیں، وہ دوسری لہر آنے کی صورت میں کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔
منگل کو فورڈ موٹرز نے ریاست مزوری کے کینساس سٹی میں واقع اسمبلی پلانٹ کو عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا، کیونکہ وہاں ایک ملازم کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ شکاگو اور ڈئیربورن میں فورڈ کے دو دوسرے پلانٹ بھی وقتی طور پر بند کیے گئے ہیں۔