پاکستان کے صوبے پنجاب میں ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بھی کارگر ثابت ہو رہی ہیں۔ محکمۂ صحت پنجاب کا کہنا ہے کہ ان ادویات کے حوصلہ مند نتائج سامنے آئے ہیں۔
کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین اب تک دنیا بھر میں کہیں دستیاب نہیں البتہ اس وبا سے متاثرہ مریضوں کا علاج اینٹی ملیریا ادویات سے کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اینٹی ملیریا کی دوائی کلوروکوئن کو کرونا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔
منگل کو ہی صدر ٹرمپ کے انتباہ پر بھارت نے اینٹی ملیریا ادویات کی برآمد پر عائد پابندی ختم کی ہے۔
پاکستان میں بھی اینٹی ملیریا ادویات کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں میو اسپتال لاہور کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم بتاتے ہیں کہ ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کو کرونا کے مریضوں پر آزمایا گیا ہے جس کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسد اسلم نے بتایا کہ چین سے پاکستان آنے والے طبی ماہرین کے وفد نے بھی پاکستانی ماہرین کو کرونا کے مرض میں مبتلا مریضوں کو ملیریا سے بچاؤ یعنی اینٹی ملیریا ادویات دینے کی ہدایت کی ہے۔
اُن کے بقول یہ وہ ادویات ہیں جن میں کلوروکوئن کا مرکب شامل ہے۔ اب تک کرونا وائرس سے متاثرہ 100 افراد کو یہ ادویات دی جاچکی ہیں جن میں سے 14 مریض صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں جنوری 2011 میں اینٹی ملیریا کی ادویات سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں 252 مریض ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیقات کے بعد یہ انکشاف ہوا تھا کہ ہلاک ہونے والے مریضوں کو اینٹی ملیریا ادویات کی زیادہ خوراک دی گئی تھی۔
ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق کرونا وائرس کے شکار مزید 500 مریضوں کو اینٹی ملیریا ادویات دی جائیں گی۔ ان مریضوں کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے۔ اُس کے بعد ہی حتمی طور پر یہ کہا جا سکے گا کہ ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے کارگر ثابت ہو رہی ہیں یا نہیں۔
امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی سے منسلک فارماسسٹ ڈاکٹر نور محمد مہر کہتے ہیں کہ اصل میں کلوروکوئن اینٹی ملیریا ہے اور یہ انسانی پھیپھڑوں پر اثر دکھاتی ہے۔
ان کے بقول، مریض کو کلوروکوئن دینے سے میوٹیشن میں بہتری آتی ہے۔ دنیا بھر میں کرونا کے مریضوں کو یہ دوائی دینے کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر نور محمد مہر کے مطابق ان ادویات میں آر این اے اور ڈی این اے ہوتا ہے۔ کلوروکوئن کرونا کے آر این اے اور انسانی پھیپھڑوں کے درمیان ایک دائرے کی شکل میں فاصلہ پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے کرونا انسانی جسم میں مزید آگے نہیں پھیل پاتا جب کہ کلوروکوئن کا ڈی این اے اُس وقت مدد دیتا ہے جب انسانی پھیپھڑوں پر کوئی بھی وائرس حملہ کرتا ہے۔
ان کے بقول اب تک کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں کرونا کی کمزور شکل آئی ہے۔
نشتر اسپتال ملتان کے سابق فزیشن اور سینئر ڈاکٹر کُنور شفقت علی خاں کہتے ہیں کہ مختلف بیماریوں میں مختلف ادویات کا اثر مختلف ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کُنور کے بقول، ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کرونا کے مریضوں کو ملیریا سے بچاؤ کے لیے نہیں دی جا رہیں بلکہ اِسے پھپپھڑوں کے گرد ایک حفاظتی دیوار بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ کرونا وائرس انسانی جسم میں پھیپھڑوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ یہ عالمی ادارۂ صحت کی تجویز کردہ ادویات ہیں۔
'کلوروکوئن کی اکھٹی چار گولیاں اثر دکھاتی ہیں'
ڈاکٹر کُنور شفقت بتاتے ہیں کہ اگر کسی شخص پر کسی بھی وائرس کا حملہ ہو جائے تو کلوروکوئن اور اریتھرومائی سین کی پانچ سو ملی گرام والی ایک گولی دی جاتی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جس طرح ڈسپرین کی دو گولیاں سر درد کے لیے استعمال ہوتی ہیں جب کہ اس کی آدھی گولی دل کے عارضے میں دی جاتی ہے۔ کلوروکوئن کی اکٹھی چار گولیاں ملیریا کے خلاف اثر دکھاتی ہیں۔
ڈاکٹر کنور کے مطابق ملیریا کے مریض کو 12 گولیوں کا کورس کرایا جاتا ہے جب کہ کلوروکوئن کی ایک گولی انسانی پھیپھڑوں کے گرد حفاظتی تہہ بناتی ہیں۔ کلوروکوئن کی طرح دوسری دوائی اریتھرومائی سین ہے اور وہ بھی یہی کام کرتی ہے۔ یہ گولیاں تین ہفتوں تک انسانی پھیپھڑوں کے گرد حفاظتی تہہ بنا دیتی ہیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق اِس وقت ملک میں 38 کمپنیاں کلوروکوئن ادویات بنانے کی غرض سے اس کے پاس رجسٹرڈ ہیں جبکہ مزید رجسٹریشن کے لیے بھی مختلف کمپنیوں کو دعوت دی گئی ہے۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا سے متاثرہ ملکوں میں سب سے پہلے فرانس نے اپنے مریضوں کو سنوفی لیبارٹریز کی بنی اینٹی ملیریا ادویات دیں جس کے مریضوں پر بہتر نتائج دیکھنے کو ملے۔
دوسری جانب امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے بھی کرونا سے متاثرہ مریضوں کو کلوروکوئن، پلاکیونل اور ریمڈیسیور ادویات دینے کی سفارش کی ہے جب کہ باقی دنیا میں بھی اینٹی ملیریا ادویات کو کرونا کے متاثرہ مریضوں کو دینے کے تجربات ہو رہے ہیں جن میں چین اور جنوبی کوریا بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں رجسٹرڈ 18 کمپنیوں کے پاس کلوروکوئن بنانے کا لائسنس
ڈاکٹر نور محمد مہر بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مجموعی طور ہر آٹھ سو سے زائد ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں ادویہ سازی میں مصروف ہیں۔ یہ ادویات دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں اور ان سے پاکستان کو آٹھ بلین ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان میں 810 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے اٹھارہ کمپنیوں کو کلوروکوئن بنانے کا لائسنس حاصل ہے۔
طبی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ملیریا، ہیپاٹائٹس اور ڈینگی جیسے امراض پاکستان، بھارت سمیت افریقہ اور تیسری دنیا کے ممالک میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے ماضی میں بچوں کو ٹی بی سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگوائی ہوئی ہے اُن پر کرونا کے اثرات کم دیکھنے کو ملے ہیں۔
کلورکوئن سمیت دیگر ادویات کا خام مال چین اور بھارت سے پاکستان آتا ہے۔ پاکستان ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں نوے فی صد بننے والی ادویات کا زیادہ تر خام مال دوسرے ممالک سے آتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کلوروکوئن سمیت دیگر ادویات کا 45 فی صد خام مال چین اور 35 فی صد بھارت سے پاکستان آتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت بند ہونے سے تمام خام مال دبئی کے راستے پاکستان آتا ہے۔
ڈرگ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق وہ ادویات جن میں کلوروکوئن یا اینٹی ملیریا مرکب شامل ہوتے ہیں وہ پہلے بازار میں دس سے بیس روپے میں بیس گولیاں با آسانی دستیاب ہوتی تھیں لیکن جب سے کرونا کی وبا پاکستان میں آئی ہے لوگوں نے اِس کی خریداری تیز کر دی ہے۔
ایسوسی ایشن کے مطابق اب یہ ادویات بازار میں نایاب ہیں اور دس روپے والی بیس گولیوں کا پتہ دو سو روپے میں دستیاب ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق کلوروکوئن ہر مریض کو نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ کلوروکوئن یا ملیریا کی کوئی بھی دوائی بغیر کسی ڈاکٹری نسخے یا کسی بھی فارماسسٹ کے مشورے کے بغیر استعمال نہ کی جائیں۔