بعض ماہرین کہتے ہیں کہ 26 نومبر کے احتجاج اور جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کے بعد پی ٹی آئی نے بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پارٹی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مبصرین کے مطابق تنخواہوں میں یہ اضافہ ایسے موقعے پر کیا گیا ہے جب ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں اور ایسے وقت میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اچانک زیادہ اضافہ کرنے پر سوال تو ہوں گے۔
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنرل فیض پر الزامات ایک طرح سے تحریکِ انصاف کے خلاف بھی چارج شیٹ ہے۔
شام میں مقیم ایک پاکستانی استاد نے بتایا ہے کہ وہ اتوار کے بعد اپنے گھر سے نہیں نکلے ہیں اور ان کا راشن ختم ہوتا جارہا ہے۔
سول فرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان کے ساتھ ساتھ عمران خان نے مذاکرات کا راستہ کھلا رکنے کے لیے پانچ رُکنی مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں ایک طرف ملک کی کپڑے کی صنعت متاثر ہونے کا خدشہ ہے تو وہیں روئی کی درآمد سے اخراجات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی کہتے ہیں کہ 26 نومبر کے احتجاج کا حکومت اور پی ٹی آئی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کہتی ہیں کہ اسلام آباد میں احتجاج کے روز کنٹینر کے ذریعے لوگوں کو کنٹرول نہیں کیا گیا اور دھرنا ختم کرنے سے متعلق بھی پارٹی نے اعتماد میں نہیں لیا۔ علیمہ خان کا ضیاالرحٰمن کے ساتھ انٹرویو دیکھیے۔
پی ٹی آئی ماضی قریب میں تین مرتبہ اسلام آباد، دو مرتبہ لاہور، صوابی، مردان، تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور پورے ملک میں تین مرتبہ احتجاج کی کال دے چکی ہے۔ اِن تمام احتجاجوں میں ایک بات قدرے مشترک پائی گئی ہے کہ ماسوائے دو تین چہروں کے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کسی بھی جلسے یا احتجاج میں نظر نہیں آئی۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پارٹی کے اندر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے اور احتجاج کی ناکامی کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے۔
چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے احتجاج کو ناکام نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اُنہوں نے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا کہنا تھا جس پر وہ عمل نہیں کر سکے۔
انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور کنٹینرز لگانے کے باوجود تحریکِ انصاف کا مارچ اسلام آباد میں داخل ہوا ہے جس پر بعض حلقے سوال اُٹھا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس بار احتجاج کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے کیوں کہ معاملات بگڑنے کی صورت میں اُن کے لیے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق چھ لاکھ روپے سالانہ آمدن والے کسان پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا جب کہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ والے کاشت کاار پر چھ لاکھ کا 15 فی صد سالانہ ٹیکس عائد ہو گا۔
ابتدائی طور پر ہیلتھ ایمرجنسی کا نفاذ صوبے کے سب سے زیادہ آلودہ رہنے والے شہروں لاہور اور ملتان میں کیا گیا ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑھنے پر پنجاب حکومت نے آئندہ ہفتے لاک ڈاؤن لگانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم ماہرِ قانون بیرسٹر امجد ملک بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے برطانیہ میں قانون موجود ہے مگر قانون تب ہی حرکت میں آتا ہے جب متاثرہ شخص اِس کی شکایت کرتا ہے۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید اسموگ نے شہریوں کی زندگی مشکل کر رکھی ہے۔ اسموگ کے تدارک کے لیے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اور شہری ان اقدامات کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟ جانیے لاہور سے ضیاءالرحمٰن کی رپورٹ میں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب بہت جلد عمران خان جیل سے باہر آ جائیں گے۔
بھارتی صحافی رویندر سنگھ روبن کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات محدود ہونے کے باوجود کرتار پور راہداری کا افتتاح ہوا۔ لہذٰا اسموگ جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی دونوں مل کر کام کر سکتے ہیں۔
مریم نواز رواں برس وزیرِ اعلٰی منتخب ہونے کے بعد سے ہی خاصی متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ مریم نواز نے بہت مختصر وقت میں خواتین، نوجوانوں اور دیگر طبقات کے لیے کئی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں۔
مزید لوڈ کریں