کہانی تو دہشت اور خون کی اُس ہولی سے شروع ہوئی تھی۔
جو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 16 دسمبر 2014ء کو کھیلی گئی۔
وہی سکول، جہاں موت لکھنے والوں نے زندگی کو راستہ نہ دینے کی قسم کھائی تھی۔
معصوم چہروں،
رنگین خوابوں،
خوبصورت کہانیوں،
اور اچھی اچھی باتیں سکھانے والی کتابوں، کاپیوں اور بستوں کو،
بے گناہ خون سے رنگنے والے سفاک ہاتھ،
خوف کی فصل کو خون کا زہر پلا کر، زندگی کی سانسیں کھینچنا چاہتے تھے۔
لیکن، ایسا نہیں ہوسکا۔۔۔
کیونکہ، زندگی باقی ہے۔۔
خواب باقی ہیں۔۔۔
امید باقی ہے۔
امید۔۔۔
جو ہمیں، کہانی کے اگلے صفحے پلٹنے پر مجبور کرتی ہے۔۔
آرمی سکول پشاور کے بچوں سے ایک ہلکی پھلکی ملاقات کیجئے ہمارے اس وڈیو فیچر میں۔۔