عرب لیگ کے اجلاس میں مشترکہ عرب فوجی فورس تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں اس وقت تک فضائی کارروائیاں جاری رہیں گی جب تک شیعہ حوثی باغی "ہتھیار ڈال کر پیچھے نہیں ہٹ جاتے۔"
مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں دو روزہ اجلاس کے اختتام پر اتوار کو عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔
انھوں نے کہا کہ "یمن تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا، حوثی بغاوت کو ختم کر کے جائز اقتدار کی بحالی کے لیے پرامن ذرائع ناکام ہونے کے بعد صورتحال موثر عرب اور بین الاقوامی اقدامات کی متقاضی تھی۔"
یمن میں حوثی کہلوائے جانے والے شیعہ قبائلیوں نے گزشتہ سال ستمبر میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے صدر منصور ہادی کو بھی یہاں سے منتقل ہونا پڑا۔
سعودی عرب نے گزشتہ جمعرات کو اپنے عرب اور خلیجی اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن میں باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں۔
عرب لیگ کے اختتامی اجلاس میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ تمام رہنما مشترکہ عرب فوج کی تشکیل کے اصولی فیصلے پر متفق ہیں۔ ان کے بقول ایک اعلیٰ سطحی پینل متعلقہ عسکری قائدین کی نگرانی میں اس ضمن میں لائحہ عمل ترتیب دے گا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کے مطابق مصر کی فوج اور سکیورٹی کے حکام نے کہا ہے کہ مجوزہ فورس میں 40 ہزار تک فوجی شامل ہوں گے اور اس کا صدر دفتر قاہرہ یا پھر سعودی دارالحکومت ریاض میں ہوگا۔ اس فورس کو لڑاکا طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور توپ خانے کی مدد بھی حاصل ہو گی۔
ایک طویل عرصے سے مشترکہ عرب فورس کی تشکیل کا معاملہ زیر بحث رہا ہے لیکن 22 رکنی لیگ کسی متفقہ فیصلے پر نہیں پہنچ سکی تھی۔ تاحال فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا تمام رکن ممالک اس فورس میں اپنے اہلکار شامل کریں گے یا نہیں۔