افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والا سیاسی تنازع شدید ہو گیا ہے جب کہ اشرف غنی اور اُن کے حریف عبداللہ عبداللہ نے الگ الگ تقریب میں صدر کے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔
افغان الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج میں برتری حاصل کرنے والے اشرف غنی نے پیر کی صبح کابل کے صدارتی محل میں صدارت کی نئی مدت کے لیے عہدے کا حلف اٹھایا دوسری جانب سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی ایک علیحدہ تقریب میں صدارت کا حلف اٹھایا۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق کابل کے صدارتی محل میں مقامی وقت کے مطابق سہہ پہر 3:10 پر صدر اشرف غنی نے حلف اٹھایا جس کے 10 منٹ بعد عبداللہ عبداللہ نے سپیدر محل میں عہدے کا حلف اٹھایا۔
اس سے قبل امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے دونوں رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور سیاسی تنازع کرنے کی کوشش کی۔ تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔
کئی ملکوں کے سفیروں نے صدر اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ زلمے خلیل زاد کے علاوہ نیٹو کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی اسی تقریب کا حصہ تھے۔
اشرف غنی کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر متعدد دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ اس موقع پر شرکا نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کیا۔ تاہم اشرف غنی تقریب میں شریک افراد کو نشستوں پر بیٹھے رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے کوٹ کے بٹن کھول کر شرکا کو دکھایا کہ انہوں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی۔
دوسری جانب کابل کے سپیدر محل میں عبداللہ عبداللہ کی تقریبِ حلف برداری میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ تاہم یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ کن ممالک کے نمائندوں نے اس تقریب میں شرکت کی۔
افغانستان کی وزارتِ خارجہ کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ پاکستان سمیت 35 ملکوں کے سفیروں اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان حلف برداری پر اختلافات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب افغان سیاسی رہنماؤں کو طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات شروع کرنا ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت اگلے مرحلے میں بین الافغان مذاکرات ہوں گے۔
افغانستان کے الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا تھا تاہم ان کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
صدارتی انتخابات کے نتائج پر جاری اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرتے ہوئے انتخابات میں تیسری بار دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والے عبداللہ عبداللہ کو دوبارہ ملک کا چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
افغانستان جانے والے پاکستانی سیاسی رہنما
افغان صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عہدیداروں پر مشتمل ایک وفد کابل پہنچا۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق کابل پہنچنے والے پشتون سیاسی رہنماؤں میں پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے چیرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر غلام احمد بلور، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، سابق خواتین رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اور جمیلہ گیلانی شامل ہیں۔
فرحت اللہ بابر کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک چار رکنی وفد بھی کابل پہنچنے والوں میں شامل ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود، عبداللہ ننگیال، فضل خان ایڈووکیٹ اور رحیم شاہ ایڈووکیٹ بھی کابل پہنچ چکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے وفد میں غلام احمد بلور کے علاوہ بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر اصغر خان اچکزئی، خیبر پختونخوا کے سابق صوبائی وزیر حاجی ہدایت اللہ اور بریگیڈئر ریٹائرڈ محمد سلیم خان بھی شامل ہیں۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو اتوار کی صبح اسلام آباد کے شھید بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حکام نے کابل جانے سے روک دیا تھا۔ تاہم، بعد میں حکام نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے دونوں ارکان قومی اسمبلی کو کابل جانے کی اجازت دی ہے۔