پاکستان کے صوبہٴپنجاب کے چھوٹے سے گاوٴں اٹانوالی میں رہنےوالی آسیہ بی بی ، کا پورا نام آسیہ نورین ہے۔ بیالیس برس کی آسیہ پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ امریکی اخبار 'نیویارک پوسٹ' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، آسیہ بی بی کا کہنا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ مناسب نہیں۔
آسیہ بی بی پچھلے چار برس سے لاہور کی ایک جیل میں ’توہینِ رسالت‘ کے جرم میں سزائےموت کی منتظر ہیں۔
فرانسیسی خاتون صحافی عینی اسابیل کہتی ہیں کہ ’آسیہ بی بی کے کیس کی نوعیت نہایت سنگین ہے۔ اُن کے بقول، ’آسیہ بی بی اپنے جرم پر پیشمان ہیں، مگر انتہا پسندی کے باعث، اُن کی جیل سے رہائی ممکن نہیں‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آسیہ بی بی کو دور دراز علاقے کی جیل میں رکھا گیا ہے۔
عینی اسابیل مزید کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ سزائے موت سے قبل ہی وہ خاموشی سے جیل کے اندر ہی انتقال کرجائیں۔ اُن کے بقول، شاید جیل کا ہی کوئی قیدی اُسے زہر دے دے۔
ان کے بقول، اس سے پہلے آسیہ بی بی کے کیس سے متعلق بات کرنےوالے پاکستان کے دو عہدے داران کو بھی قتل کیاجاچکا ہے، جن میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی بھی شامل ہیں، جنھیں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاک کیا گیا۔
اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے آسیہ کہتی ہیں کہ،’میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ مجھے دنیا سے دور کرکے جیل میں ہاتھ باندھ کربیڑیاں ڈال کر بند کیا گیا ہے۔ معلوم نہیں میری کتنی زندگی باقی ہے۔ بس، موت کا انتظار کر رہی ہوں‘ ۔
وہ بتائی ہیں کہ، ’مجھے بغیر کھڑکی والے ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا ہے۔ دراصل، مجھے اپنے پڑوسی کی مدد کرنے پر قصور وار قراردیا گیا‘۔
اپنی روداد بتاتے ہوئے، آسیہ کہتی ہیں کہ 14 جون،2009 ء کا وہ دن مجھے یاد ہے۔ تپتی دھوپ کی دوپہر تھی۔ مجھے میرے پڑوسی نے کام کا کہا تھا کہ کھیت میں پھل توڑنے پر 250 روپے اجرت ملے گی۔ میں پڑوسی کے باغ کے مالک، ندیم کے کھیت میں پھل توڑنے گئی تھی۔
اُن کے بقول، ’میں نے کیا غلط کام کیا؟ مجھے پیاس لگی تھی۔ میں نےساتھ کے ایک کنویں سے پانی پینے کی جسارت کی۔ میرا جرم بس اتنا تھا کہ میں نے اُسی برتن میں پانی پی لیا جو پڑوسی مسلمان کا تھا‘۔
آسیہ مزید کہتی ہیں کہ جب بھی اُن کی جیل کا دروازہ کھلتا ہے، اُن کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔
اُن کے بقول، ’میری زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پتہ نہیں، میرے ساتھ کیا ہورہاہے۔یہ بہت ظالمانہ فعل ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم ہونا کوئی جرم ہے‘۔
آسیہ بی بی پچھلے چار برس سے لاہور کی ایک جیل میں ’توہینِ رسالت‘ کے جرم میں سزائےموت کی منتظر ہیں۔
فرانسیسی خاتون صحافی عینی اسابیل کہتی ہیں کہ ’آسیہ بی بی کے کیس کی نوعیت نہایت سنگین ہے۔ اُن کے بقول، ’آسیہ بی بی اپنے جرم پر پیشمان ہیں، مگر انتہا پسندی کے باعث، اُن کی جیل سے رہائی ممکن نہیں‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آسیہ بی بی کو دور دراز علاقے کی جیل میں رکھا گیا ہے۔
عینی اسابیل مزید کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ سزائے موت سے قبل ہی وہ خاموشی سے جیل کے اندر ہی انتقال کرجائیں۔ اُن کے بقول، شاید جیل کا ہی کوئی قیدی اُسے زہر دے دے۔
ان کے بقول، اس سے پہلے آسیہ بی بی کے کیس سے متعلق بات کرنےوالے پاکستان کے دو عہدے داران کو بھی قتل کیاجاچکا ہے، جن میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی بھی شامل ہیں، جنھیں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاک کیا گیا۔
اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے آسیہ کہتی ہیں کہ،’میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ مجھے دنیا سے دور کرکے جیل میں ہاتھ باندھ کربیڑیاں ڈال کر بند کیا گیا ہے۔ معلوم نہیں میری کتنی زندگی باقی ہے۔ بس، موت کا انتظار کر رہی ہوں‘ ۔
وہ بتائی ہیں کہ، ’مجھے بغیر کھڑکی والے ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا ہے۔ دراصل، مجھے اپنے پڑوسی کی مدد کرنے پر قصور وار قراردیا گیا‘۔
اپنی روداد بتاتے ہوئے، آسیہ کہتی ہیں کہ 14 جون،2009 ء کا وہ دن مجھے یاد ہے۔ تپتی دھوپ کی دوپہر تھی۔ مجھے میرے پڑوسی نے کام کا کہا تھا کہ کھیت میں پھل توڑنے پر 250 روپے اجرت ملے گی۔ میں پڑوسی کے باغ کے مالک، ندیم کے کھیت میں پھل توڑنے گئی تھی۔
اُن کے بقول، ’میں نے کیا غلط کام کیا؟ مجھے پیاس لگی تھی۔ میں نےساتھ کے ایک کنویں سے پانی پینے کی جسارت کی۔ میرا جرم بس اتنا تھا کہ میں نے اُسی برتن میں پانی پی لیا جو پڑوسی مسلمان کا تھا‘۔
آسیہ مزید کہتی ہیں کہ جب بھی اُن کی جیل کا دروازہ کھلتا ہے، اُن کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔
اُن کے بقول، ’میری زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پتہ نہیں، میرے ساتھ کیا ہورہاہے۔یہ بہت ظالمانہ فعل ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم ہونا کوئی جرم ہے‘۔