امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کرٹ کیمپبل نے کہا ہے کہ اس سال آسیان کے علاقائی اجتماع اور مشرقی ایشیا کی سربراہ کانفرنس دونوں میں امریکہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ مِل کر کام کرنے کے پختہ عزم پر قائم ہے۔ ’’ جنوب مشرقی ایشیا میں ہم اس تشویش کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کوئی ایسا اجتماع ہو گا جس میں زیادہ وسیع پیمانے پر مسابقت قائم ہوگی جس سے ہمارے جنوب مشرقی ایشیا کے دوستوں میں عدم استحکام اور دشواریاں پیدا ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی رشتے میں تھوڑا بہت مقابلہ تو ہوتا ہے اور امریکہ اور چین کے درمیان بھی مسابقت موجود ہے لیکن ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم جنوب مشرقی ایشیا میں مناسب طریقے سے مِل جُل کر کام کریں‘‘۔
کیمپبل نے منگل کے روز واشنگٹن ڈی سی میں قائم تحقیقی ادارے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں جو تقریر کی اس کا موضوع تھا جنوب مشرقی ایشیا کے امور میں امریکہ کی دلچسپی۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور ایشیا پیسیفک کے علاقے کی ابھرتی ہوئی فوجی طاقت چین کے ساتھ مشترکہ دلچسپی کے امور پر کام کرتے ہوئے ایسے منصوبے تلاش کرے گا جن میں دونوں ملک علاقے میں ایک دوسرے کے ساتھ مِل کر کام کر سکیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ علاقے میں اپنے رابطوں میں اضافہ کر رہا ہے تا کہ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کا توڑ کیا جا سکے۔ گذشتہ سال جب امریکہ نے ساؤتھ چائنہ سی کے بارے میں تنازعات کے پُر امن تصفیے میں مدد کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا تھا تو چین نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ چین، ویتنام، برونائی، ملائیشیا، فلپائن اور تائیوان سب ساؤتھ چائنہ سی کے کچھ حصوں یا پورے سمندر پر ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ خیال ہے کہ یہ سمندر تیل اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ چین کا اصرار ہے کہ اس معاملے کو دو طرفہ بنیادوں پر طے کیا جانا چاہیئے۔
جب کیمپبل سے ویتنام کے تیل تلاش کرنے والے ایک بحری جہاز اور چین کی بحریہ کے ایک جہاز کے درمیان ایک حالیہ واقعے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس بارے میں براہِ راست کوئی جواب نہیں دیا لیکن اس قسم کے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ’’ہماری عام پالیسی وہی ہے جو پہلے تھی۔ ان حالات میں ہم تشدد کے استعمال یا دھمکیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے۔ ہم ساؤتھ چائنہ سی سے متعلق بہت سے ملکوں سے مسلسل پرائیویٹ طور پر رابطے میں رہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے‘‘۔
کیمپبل کہتے ہیں کہ صدربراک اوباما اور وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ کے رابطے بڑھانے کے لیے کام کیا ہے۔ 2009ء میں صدر اوباما پہلے امریکی صدر تھے جو آسیان کے تمام 10 رکن ممالک سے ملے۔ وزیر ِخارجہ کلنٹن نے سات بار ایشیا کا دورہ کیا ہے اور ان میں سے بہت سے دوروں میں وہ جنوب مشرقی ایشیا گئی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم اقدام یہ ہے کہ اس سال نومبر میں بالی، انڈونیشیا میں مشرقی ایشیا کے ملکوں کی سربراہ کانفرنس میں پہلی بار امریکہ بھی شامل ہوگا۔ کیمپ بل کہتے ہیں کہ امریکہ اس سربراہ کانفرنس میں رکن ممالک کے ساتھ موجودہ ایجنڈے پر تبادلہ خیال کے لیے تیار ہو کر آئے گا۔ اس کے علاوہ چند شعبوں میں امریکہ کچھ تجاویز بھی پیش کرے گا۔
اپنی تقریر کے دوران کیمپ بل نےعلاقے میں آسیان کے اہم رول کا کئی بار ذکر کیا۔’’یہ بہت اہم ادارہ بن گیا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران اس نے بعض انتہائی مشکل اور پیچیدہ مسائل کا سامنا کیا ہے جیسے ایٹمی اسلحہ کا پھیلاؤ، برما سے متعلق مشکل مسائل، یہ سوال کہ علاقے میں جہازرانی کی سیکورٹی کے بارے میں بات چیت کو کیسے فروغ دیا جائے، وغیرہ‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک شعبہ جس میں مزید کام کرنے کی گنجائش موجود ہے وہ یہ ہے کہ آسیان جیسے اجتماعات میں شمال مشرقی ایشیا کے مسائل پر کس طرح توجہ دی جائے۔
علاقے میں امریکہ کا مجموعی مقصد یہ ہے کہ صرف شمالی ایشیا میں نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی امریکہ کی پائیدار اور مضبوط موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ کیمپ بل کہتے ہیں کہ امریکہ کے اس عزم کی کچھ تفصیلات کا خاکہ اس وقت پیش کیا جائے گا جب وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس اس ہفتے کے آخر میں سنگاپور میں علاقائی دفاع کی میٹنگ ، the Shangri-La Dialogue میں شامل ہوں گے۔