بر اعظم ایشیا میں بھوک بدستور ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جہاں اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارےکے خطے میں غذائی تحفظ کے تازہ ترین جائئزے کے مطابق دو ہزار بائیس میں کووڈ 19 کی وبا سے پہلے کے مقابلے میں ساڑھے پانچ کروڑ مزید لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت بھر کھانے کے بغیر زندگی گزارنے والوں میں سے زیادہ تر جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں۔ اور وہاں مردوں کے مقابلے میں خواتین کواور بھی کم غذا ملتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائیزیشن یا ایف اے او کی اسٹڈی کے مطابق خوراک کی کم فراہمی، کھپت اور غذائی توانائی کی ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اور اس کا مقصد توانائی کی شدیدمحرومی کی صورت حال اور اسکے اثرات کو جاننا ہے, جو پیداوار میں مانع ہوتی ہے، اور پیداواری صلاحیت اور معیار زندگی کو گھٹاتی ہے۔
اس خطے میں غذائی قلت کے شکار لوگوں کی تعداد سن دو ہزار بائیس میں ایک سال پہلے کی آٹھ اعشاریہ آٹھ فیصد کے مقابلے میں کم ہو کر آٹھ اعشاریہ چار فیصد پر آگئی۔
لیکن یہ تعداد بھی، سات اعشاریہ تین فیصد لوگوں کی اس تعداد سے زیادہ ہے جو وبائی مرض شروع ہونے سے پہلے ہی غذائی قلت کا شکار تھے اوروبا کے سبب بعض معیشتیں زوال پذیر ہونا شروع ہو گئیں اور لاکھوں لوگ اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔
قدرتی آفات اور غذائی اشیا ء کی فراہمی میں خلل نے، جن کا تعلق اکثر ماحولیات کی تبدیلی سے جوڑا جاتا ہے، اس دباؤ میں اضافہ کیا۔
ایف اے او کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ خواتین کے لئے زیادہ سنگین ہے۔ مشرقی ایشیاکو نکال کر باقی علاقے میں ہر پانچ میں سے ایک سے زیادہ خواتین کو درمیانی یا سنگین سطح کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
خوراک، ایندھن، کھاد اور اور مویشیوں کی خوراک کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا مطلب ہے کہ وبائی مرض کے بعد وہ پیش رفت رک گئی ہے جو بھوک کے خاتمے کے لئے سن دو ہزار کے اوائیل سے شروع ہوئی تھی۔
یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو جزوی طور پر یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں غلے، خوردنی تیل اور کھاد وغیرہ کی سپلائی میں خلل پڑنے سے بدتر ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کے کہ دنیا بھر میں خوراک تک غیر یقینی رسائی رکھنے والے افراد کی تعداد دو ہزار بائیس میں بڑھ کر کوئی دو اعشاریہ چار ارب ہوگئی ہے جودو ہزار پندرہ میں صرف ایک اعشاریہ چھہ ارب تھی۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر چار میں سے کم از کم تین افراد اس غیر معمولی غذائی بحران کے سبب صحتمند غذا کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
شمالی کوریا میں رپورٹ کے مطابق ان لوگوں کی تعداد خطے میں سب سے زیادہ ہے جو غذائی قلت کا شکار ہیں اور یہ تعداد کوئی پینتالیس فیصد تک پہنچتی ہے۔ جبکہ اس لحاظ سے افغانستان دوسرے نمبر پر آتا ہے جہاں ایسے لوگوں کی تعدا دتیس فیصد ہے جو غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں غذا کی کمی کے شکار لوگوں کی شرح نو اعشاریہ دو فیصد ہے۔ جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو چھوڑ کر بحرالکاہل کےاوشینا جزائر میں یہ شرح اکیس فیصد ہے۔ ایشیاء کے جنوبی حصے میں اسکی شرح سولہ فیصد ہے۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سےلیا گیا ہے۔
فورم