جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ملکوں بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات حالیہ کچھ عرصےسے انتہائی کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
اس کی وجہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں امن و امان کی خراب صورت حال، بھارتی حکومت کے خلاف جاری مظاہرے اور گزشتہ ہفتے اوڑی میں ایک بھارتی فوجی کیمپ پر مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے کو قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ حملہ مبینہ طور پر پاکستان سے آئے عسکریت پسندوں نے کیا ہے۔ پاکستان اس دعویٰ کو مسترد کرتا ہے۔
اس تناظر میں نا صرف دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر سخت بیانات کا تبادلہ دیکھنے میں آرہا ہے بلکہ عوامی سطح پر اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔
رواں ہفتے بھارت میں بعض انتہاپسند حلقوں کی طرف سے بھارت میں فلم اور ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں سے بھی ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔
اگرچہ اس بارے میں بھارتی حکومت کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم بھارت میں کچھ آزاد خیال حلقوں نے ایسے بیانات پر کڑی تنقید کی۔
پاکستان اور بھارت میں عوامی رابطوں اور امن کے فروغ کے حامی معروف پاکستانی تجزیہ کار مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایسے انتہا پسندانہ رویوں کو افسوسناک قرار دیا۔
انہوں نے کہ دونوں ملکوں میں انتہا پسند سوچ کی حامل تنظیموں اور افراد کی حوصلہ شکنی ضروری ہے اور ان کے بقول اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کا میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی سطح پر رابطوں کے فروغ لیے کئی تنظمیں غیر سرکاری سطح پر سرگرم ہیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی دور میں ان کی کوششیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
پاکستان میں بھی بعض حلقے خاص طور پر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی بھارتی فلموں پر پابندی عائد کرنے کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔