شام کے صدر بشار الاسد نے تسلیم کیا ہے کہ ملک کے بعض علاقے ان کے کنٹرول سے نکل گئے ہیں اور اس وقت شامی فوج کی ترجیح حکومت کے کنٹرول میں رہ جانے والے اہم ترین علاقوں کا دفاع ہے۔
اتوار کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی اپنی تقریر میں شام کے صدر نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ شام کی فوج پسپا یا ٹوٹ پھوٹ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت شامی فوج کی ترجیح اہم ترین علاقوں کا تعین اور ان کا دفاع ہے تاکہ انہیں "دہشت گردوں" کے ہاتھ میں جانے سے بچایا جائے اور ان کے ذریعے دیگر علاقوں کا دفاع بھی کیا جاسکے۔
صدر اسد کا کہنا تھاکہ شام کی فوج ملک کے ہر حصے میں اپنی موجودگی یقینی نہیں بناسکتی کیوں کہ اگر اس نے ایسا کیا تو کئی اہم علاقے فوج کے قبضے سے نکل جانے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات فوجی دستوں کو کسی علاقے سے نکال کر کسی دوسرے اہم علاقے کے دفاع کے لیے منتقل کرنا پڑتا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ فوج پسپا ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شامی فوج اپنے ملک کے دفاع کے قابل ہے اور اس کی لغت میں شکست کا لفظ موجود نہیں۔ انہوں نے "شام کے دشمنوں" کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
شام میں گزشتہ چار برسوں سے جاری خانہ جنگی اور محاذ آرائی کے بعد اب شام کا بمشکل 25 فی صد رقبہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول میں بچا ہے۔ جب کہ باقی علاقے داعش، مختلف باغی گروہوں اور کرد ملیشیاؤں کے قبضے میں ہیں۔لیکن شام کی بیشتر آبادی اب بھی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں میں رہتی ہے۔
اپنے خطاب میں صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ باغیوں سے برسرِ پیکار شام کی فوج کو ہر ممکن وسائل دستیاب ہیں لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ فوج کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ان کی حکومت نے فوج سے بھاگ جانے والے اہلکاروں کے لیے جس عام معافی کا اعلان کیا ہے اس کے نتیجے میں ان ہزاروں مفرور اہلکاروں کے دوبارہ فوج میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
شام کی سرکاری فوج کو رواں سال مارچ سے اب تک حکومت مخالف باغیوں کے ہاتھوں کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
القاعدہ کی حامی تنظیم 'النصرہ' سمیت دیگر باغی گروہوں کے ایک اتحاد نے حالیہ مہینوں کے دوران شمال مغربی صوبے ادلب کے بیشتر حصے کا کنٹرول سرکاری فوج سے چھین لیا ہے۔
ملک کے جنوب میں بھی باغی تنظیموں کے ایک اتحاد نے اردن کی سرحد کے ساتھ واقع شام کے اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جو اس سے قبل حکومت کے کنٹرول میں تھے۔
حکومت مخالف باغی گروہوں کے علاوہ شام میں شدت پسند تنظیم داعش کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے جنگجووں نے رواں سال مئی میں شامی فوج کو پسپا کرنے کے بعد تاریخی شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔