شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی ترجیح شام کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے کیوں کہ اسی کےنتیجے میں بحران کے پرامن حل کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
اتوار کو دمشق میں روسی ارکانِ پارلیمان کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے شامی صدر نے کہا کہ شام سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے نتیجے میں ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔
ملاقات کے بعد روسی وفد میں شریک رکنِ پارلیمان الیگزنڈر یوشینکو نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر ضرورت ہوئی اور عوام نے چاہا تو شامی صدر ملک میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے پر آمادہ ہیں۔
تاہم روسی رکنِ پارلیمان نے واضح کیا کہ اگر نئے صدارتی انتخابات ہوئے تو بشار الاسد خود بھی اس میں حصہ لیں گے اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرکے اقتدار سنبھالیں گے۔
صدر بشار الاسد کی حکومت نے اپنے زیرِانتظام علاقوں میں گزشتہ سال صدارتی انتخابات کرائے تھے جس میں وہ 89 فی صد ووٹ لے کر مسلسل تیسری بار سات سال کےلیے صدر منتخب ہوگئے تھے۔
شامی حزبِ اختلاف نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جب کہ عالمی برادری نے بھی ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
گزشتہ روز روسی وزیرِخارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ ان کا ملک شام کی حکومت کو نئے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد پر آمادہ کرنے کےلیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔
لاوروف نے نئے انتخابات کو شام میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔
ماسکو حکومت کےمطابق روسی وزیرِ خارجہ نے شام کے بحران پر ہفتے اور اتوار کو دو بار امریکی ہم منصب جان کیری کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔
اس سے قبل لاوروف نے ہفتے کو ایرانی اور مصری وزرائے خارجہ کو بھی ٹیلی فون کرکے شام کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا تھا جب کہ قاہرہ میں موجود سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے کہا تھا کہ شام کے مسئلے پر ہونے والی بین الاقوامی بات چیت میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
لیکن تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ روس کی حکومت فریقین کے سامنے شام کے بحران کا کیا حل تجویز کر رہی ہے اور آیا اسے شامی حزبِ اختلاف اور امریکہ اور اس کے اتحادی تسلیم کریں گے یا نہیں۔