ڈی اے 14 کہلانے والا ایک سیارچہ 15 فروری کو کرہ ارض سے تقریباً 28 ہزار کلومیڑ کے فاصلے سے گزرے گا اور امریکی خلائی ادارے ناسا اور دنیا بھر کے ماہرین فلکیات اس گردش سے بہت سے سائنسی نتائج اخذ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سیارچہ ایک گولی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزی سے یعنی 7.8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کے قریب سے گزرے گا لیکن یہ زمین سے ٹکرائے گا نہیں۔
امریکہ کے جنوب مغرب میں نیو میکسیکو اسٹیٹ میں قائم ’’نیشنل ریڈیو ایسٹرانمی آبزرویڑی‘‘ کے ماہر فلکیات مائیل بوش کہتے ہیں کہ ڈی اے 14 سیارچے کا مدار وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوگا اس لیے اس کی گردش بہت اہمیت کی حامل ہے۔
’’اس کی دلسچپ بات یہ ہے کہ ہماری توقع کے مطابق یہ سیارچہ زمین کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی گردش تبدیل کرے گا۔ کشش ثقل سیارچے کے ایک رخ کو اپنی زمین کی طرف کھینچے گی جس سے اس کی گردش تبدیل ہوگی۔‘‘
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ ڈی اے 14 کا زمین کے قریب سے دوبارہ قابل ذکر گزر 2046ء میں ہوگا اور یہ اس وقت بھی زمین سے نہیں ٹکرائے گا۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سیارچہ ایک گولی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزی سے یعنی 7.8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کے قریب سے گزرے گا لیکن یہ زمین سے ٹکرائے گا نہیں۔
امریکہ کے جنوب مغرب میں نیو میکسیکو اسٹیٹ میں قائم ’’نیشنل ریڈیو ایسٹرانمی آبزرویڑی‘‘ کے ماہر فلکیات مائیل بوش کہتے ہیں کہ ڈی اے 14 سیارچے کا مدار وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوگا اس لیے اس کی گردش بہت اہمیت کی حامل ہے۔
’’اس کی دلسچپ بات یہ ہے کہ ہماری توقع کے مطابق یہ سیارچہ زمین کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی گردش تبدیل کرے گا۔ کشش ثقل سیارچے کے ایک رخ کو اپنی زمین کی طرف کھینچے گی جس سے اس کی گردش تبدیل ہوگی۔‘‘
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ ڈی اے 14 کا زمین کے قریب سے دوبارہ قابل ذکر گزر 2046ء میں ہوگا اور یہ اس وقت بھی زمین سے نہیں ٹکرائے گا۔