سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحب زادی ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تین روزہ ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
دہشت گردی کے دفعات کے تحت درج مقدمے میں ایمان مزاری اور علی وزیر کو اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جج ابو الحسنات کے سامنے پیر کو پیش کیا گیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایمان مزاری فرار نہیں ہورہیں، یہیں موجود ہیں۔ وہ وکیل ہیں، پہلے بھی مقدمات کی تفتیش میں شامل ہوتی رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ہی نوعیت کے دو مقدمات ایمان مزاری کے خلاف درج کیے گئے ہیں، ان کے ساتھ 900 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایمان مزاری کے وکیل کے مطابق ان کا پولیس کی حراست میں رہنا ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت سے ایمان مزاری کے جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی۔
اس دوران جج ابوالحسنات نے استفسار کیا کہ ایمان مزاری پر الزام کیا ہے پہلے یہ تو معلوم ہو جائے۔
پراسیکیوٹر راجہ نوید نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایمان مزاری کے خلاف 2022 میں بھی اسی قسم مقدمہ درج ہوا تھا۔ انہوں نے عدالت سے ایمان مزاری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
اس سے پہلے عدالت آتے ہوئے ایمان مزاری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس نظام کے خلاف بھوک ہڑتال کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دن قبل لیے گئے ریمانڈ کے بعد ان سے کسی نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ان کے بقول "میری نظموں کی کتابیں بھی چوری کی گئی ہیں۔"
دوسری جانب قومی اسمبلی کے سابق رکن علی وزیر کو بھی جج ابو الحسنات کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چہرے پر کپڑا ڈال کر لایا گیا۔
اسلام آباد پولیس نے عدالت سے ایمان مزاری اور علی وزیر کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کے استدعا کی تھی۔ عدالت نے انہیں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جلسے میں مبینہ نفرت انگیز تقاریر کرنے پر اسلام آباد پولیس نے سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحب زادی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری اور پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر سمیت متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا تھا۔
بعد ازاں ان کو اتوار کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جنہوں نے ایمان مزاری کو ایک دن کے لیے ویمن پولیس اسٹیشن میں رکھنے اور علی وزیر کو ایک دن کے لیے پولیس ریمانڈ پر دینے کے احکامات دیے تھے۔
خیال رہے کہ مئی 2022 میں شیریں مزاری کو اسلام آباد میں پولیس نے گرفتار کیا تھا ان کی گرفتاری پر ایمان مزاری نے ایک بیان میں پاکستان کی فوج کے سربراہ پر الزامات عائد کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کے اغوا میں آرمی چیف ملوث ہیں۔
اس بیان پر پاکستان فوج نے اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں فوج کی جیگ برانچ کے لیفٹننٹ کرنل سید ہمایوں افتخار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرایا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 21 مئی 2022 کی شام اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایمان مزاری نے پاکستان کی فوج کی اعلیٰ قیادت (آرمی چیف) کے خلاف توہین آمیز کلمات ادا کیے جس کا مقصد فوج کو اشتعال دلانا تھا۔ یہ اقدام فوج کے اندر نفرت انگیزی کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوج کی جانب سے ایمان مزاری کے خلاف متنازع بیان پر درج کیا گیا مقدمہ خارج کر دیا تھا۔
ایمان مزاری انسانی حقوق بالخصوص لاپتا افراد کے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہی ہیں۔
ان کے بعض بیانات پر پاکستان کے ریاستی اداروں کی طرف سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں ایک کیس میں وہ لاپتا شخص کی طرف سے پیش ہوئی تھیں اور ان کی والدہ بطور وزیر انسانی حقوق کی وزیر کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔
سائفر کیس، شاہ محمود قریشی کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
دریں اثنا سائفر کیس میں گرفتار شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمے کی بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سماعت ہوئی۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی کے خلاف کیس کی ان کیمرا سماعت کی۔
اس دوران کمرۂ عدالت میں موجود غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا، عدالت کے باہر پولیس کی نفری تعینات کی گئی تھی۔
وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے شاہ محمود قریشی کے 13 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی جس پر عدالت نے چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔
خیال رہے کہ شاہ محمود قریشی کو چند روز قبل اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہ محمود قریشی پر الزام ہے کہ اُنہوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی جانب سے بھجوائے گئے سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
فورم