آسٹریلیا کے ہاتھوں تیسرے اور آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ میں 220 رنز کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کو آسٹریلیا میں نہ صرف ایک درجن میچوں میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ اسی حریف سے چوتھی بار وائٹ واش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
دورہ آسٹریلیا کے دوران کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو 39 رنز سے شکست ہوئی تھی جب کہ دوسرے میچ میں اسے ایک اننگز اور 18 رنز سے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کرکٹ کے حلقے پاکستانی ٹیم کی غیر متوازن کارکردگی پر خاصے برہم ہیں جب کہ شائقین کرکٹ نے خاص طور پر سماجی میڈیا پر کھلاڑیوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنا شروع کر رکھا ہے۔
سیریز میں شکست کے بعد پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں تیسری سے پانچویں پوزیشن پر آگیا ہے۔
کرکٹ کے معروف مبصر احتشام الحق نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی ٹیم کے بلے باز اور باؤلر آسٹریلیا کے سامنے بے بس دکھائی دیے اور میزبان ٹیم نے صحیح معنوں میں ایک بہترین ٹیم ہونے کا ثبوت دیا۔
"بالنگ مکمل طور پر ناکام رہی، آسٹریلیا کے خلاف صرف ایک اننگز ہے جس میں ہمارے بالرز نے ان کے دس کھلاڑی آؤٹ کیے بقیہ جتنی اننگز ہیں اس میں ہمارے بالرز دس آؤٹ نہیں کر سکے۔۔۔پوری ٹیم نے مجموعی طور پر مایوس کیا۔"
اب آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کو پانچ ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی سیریز کھیلنی ہے اور احتشام الحق کے خیال میں آسٹریلیا کی ایک روزہ ٹیم، ٹیسٹ ٹیم کے مقابلے میں زیادہ منجھی ہوئی ہے، جو پاکستان کو مزید مشکلات کا شکار کر سکتی ہے۔
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر جلال الدین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑی آسٹریلیا کے خلاف دباؤ کا شکار نظر آئے۔
جلال الدین قومی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو مقامی سطح پر کرکٹ کے انتظامی ڈھانچے میں لاپرواہی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نچلی سطح سے ہی اگر کھلاڑیوں کو تیار کرنے کا موثر عمل سنجیدگی سے شروع کیا جائے تو ہی بڑی ٹیموں کے خلاف پاکستان اچھی ٹیم تیار کرنے میں کامیاب ہو گا۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ 13 جنوری کو برسبین میں کھیلا جائے گا۔