|
آسٹریلیا کے ایوان نمائندگان نے بدھ کے روز ایک بل کی منظوری دی جس کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ہو گی۔ اب یہ بل حتمی منظوری کے لیے سینیٹ میں بھیجا جائے گا جس کے بعد یہ اس نوعیت کا دنیا کا پہلا قانون بن جائے گا۔
اس بل کو ایوان نمائندگان میں موجود بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔
اس بل کے تحت ٹک ٹاک، فیس بک، اسنیپ چیٹ، ریڈٹ، ایکس اور انسٹاگرام سمیت دیگر پلیٹ فارمز کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو اپنے اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کا نظام قائم کریں۔ ناکامی کی صورت میں انہیں 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس بل کی منظوری 13 کے مقابلے نیں 102 ووٹوں سے ہوئی۔ اگر اس ہفتے بل کو سینیٹ سے منظوری مل جاتی ہے تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس جرمانے سے بچنے کے لیے ایک سال کا وقت ہو گا تاکہ عمر کی پابندی کے اطلاق کے لیے نظام وضع کر سکیں۔
حزب اختلاف کے ایک قانون ساز ڈین تہان نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت نے سینیٹ میں ایسی ترامیم قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے جس سے رازداری کے تحفظ کو تقویت ملے گی۔
سوشل میڈیاپلیٹ فارمز کو یہ اجازت نہیں ہو گی کہ وہ اپنے صارفین کو پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس سمیت حکومت کی جاری کردہ شناختی دستاویزات فراہم کرنے پر مجبور کریں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شناخت کا سرکاری ڈیجیٹل نظام بھی استعمال نہیں کر سکیں گے۔
تہان نے پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ کامل ہو گا؟ نہیں۔ کیا کوئی اور قانون کامل ہے؟ نہیں۔ لیکن اگر یہ قانون مدد کرتا ہے، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی مدد دیتا ہے تو اس سے لوگوں کی زندگیوں میں بہت بڑا فرق پڑے گا۔
وزیر مواصلات مشیل رولینڈ کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں اس بل پر بدھ کو دیر گئے بحث مباحثہ ہو گا۔ تمام بڑی جماعتوں کی حمایت کے پیش نظر سینیٹ سے اس قانون سازی کی منظوری کا قومی امکان ہے۔ تاہم سینیٹ میں کسی بھی پارٹی کے پاس اکثریت موجود نہیں ہے۔
ایوان نمائندگان میں منگل اور بدھ کے روز ان قانون سازوں نے بڑھ چڑھ کر تنقید کی جن کا تعلق حکومتی یا اپوزیشن بینچوں سے نہیں تھا۔
بل کے مسودے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس بل کو مناسب جانچ پرکھ کے بغیر ایوان میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بل سے مقاصد حاصل نہیں ہو پائیں گے اور یہ قانون ہر عمر کے صارفین کی رازداری کے لیے خطرات پیدا کرے گا اور والدین سے یہ اختیار چھین لے گا کہ ان کے بچوں کے لیے کیا بہتر ہے۔
بل کے مخالفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پابندی سے بچے سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں سے محروم ہو جائیں گے۔ وہ الگ تھلگ ہو جائیں گے اور ان کا ڈارک ویب کی طرف جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
ایک آزاد قانون ساز زوئی ڈینیئل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا میں جو کچھ پایا جاتا ہے، یہ قانون سازی اسے رتی بھر نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
ڈینیئل نے پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سازی کا اصل مقصد سوشل میڈیا کے ڈیزائن کو محفوظ بنانا نہیں، بلکہ والدین اور ووٹروں کو یہ محسوس کرانا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کچھ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون سازی کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ حکومت عالمی سطح پر اولیت لینا چاہتی ہے کیونکہ کوئی دوسراملک اس طرح کا قانون بنانا نہیں چاہتا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ایک حکومتی کمشن کی جانب سے عمر کی پابندی کے اطلاق کے سلسلے میں عمر کی یقین دہانی کی ٹیکنالوجیز سے متعلق رپورٹ کے بعد اس قانون سازی پر ووٹنگ کو کم ازکم اگلے سال جون تک مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی
میلبرن کے ایک رہائشی وین ہولڈزورتھ نے، جن کے 17 سالہ بیٹے نے گزشتہ سال آن لائن جنسی زیادتی کے ایک اسکینڈل کا شکار بننے کے بعد خود کشی کر لی تھی، کہا کہ یہ بل ہمارے بچوں کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم