لندن —
مشرقی معاشرے کی خوبصورتی اس کا مشترکہ خاندانی نظام ہے ۔ جس کا سب سے بہترین تحفہ ہمارے بزرگ ہیں ۔ مغربی معاشرے میں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں شاید ہماری اتنی ضرورت نہ ہو، جتنی کہ ہمیں ان کی ۔
یوں تو خاندان کا ہر رشتہ ہی پیارا اور دل کے نزدیک ہوتا ہے مگر، دو نسلوں کی دوری کے باوجود دادا ، دادی یا نانا اور نانی کا اپنے بچوں کے بچوں کے ساتھ ایک ایسا رشتہ استوار ہو جاتا ہے جس میں پیار کے ساتھ ساتھ دوستی بھی شامل ہوتی ہے۔ جہاں والدین کے سمجھنے سے قبل ہی گھر کے بزرگ بچے کی دل کی بات جان لیتے ہیں ۔
مغربی معاشرے میں اگرچہ ،بوڑھے والدین زیادہ تر تنہائی کا شکار نطر آتے ہیں یا اپنی زندگی کےآخری ایام کسی کیئر سینٹر میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن دور حاضر میں معاشرے کے سنجیدہ حلقے خاندانی نظام کی خوبیوں کو اجاگر کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
بزرگوں کی حقیقی اہمیت جاننے کے بارے میں برطانیہ میں ایک تحقیق کی گئی جس کا مقصد دراصل معاشرے میں بزرگوں کے کردار کو نمایاں کرنا تھا ۔ خصوصاً کسی ملازمت پیشہ خاندان کے لیے بوڑھے والدین کس طرح مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔
اس تحقیق میں 1298 ملازمت پیشہ والدین نے حصہ لیا ۔ دس میں سے چار والدین نے کہا کہ ان کے لیے اپنی موجودہ ملازمت کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتا اگر، ان کے والدین ان کے بچوں کی پرورش میں ان کی مدد نہ کرتے۔
ان میں نصف والدین کی رائے میں ، اگر ان کے والدین ان کے بچے کی نگہداشت نہیں کرتے تو ،ان کی ملازمت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ گھر کی آمدنی کا ایک اچھا خاصا حصہ انھیں بچوں کے ڈے کیئر سینٹر پر خرچ کرنا پڑتا۔
اسی طرح دس والدین میں سے چھ نے بتایا کہ ،اچانک کسی مجبوری کے باعث اگر انھیں اپنے بچے کو کہیں چھوڑنا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے والدین کے دروازے پر دستک دیتے ہیں ۔
تحقیق دانوں کے مطابق والدین کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ، وہ اپنے بچوں کی نگہداشت کی طرف سے بہت سنجیدہ ہیں اسی لیے وہ اپنے والدین کے علاوہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے ہیں ۔
تحقیق میں حصہ لینے والے ہر دس میں سے چار والدین کے مطابق ،انھیں یہ سوچ کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین پر کس قدر انحصار کرتے ہیں ۔ جبکہ ایک تہائی والدین اس بات پر خفت محسوس کرتے ہیں کہ ،ان کے پھرتیلے بچوں کے پیچھے ان کے ناتواں والدین دن بھر بھاگتے رہتے ہیں ۔
بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی 'یوجینا' ایک چار سالہ نواسے 'مارک' کی نانی ہیں انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’میں روزانہ صبح مارک کو اسکول چھوڑنے اور سہ پہرمیں واپس لینے آتی ہوں ۔میں مارک کی پیدائش کے وقت سے اپنی بیٹی کے ساتھ رہ رہی ہوں جبکہ میری بیٹی اور داماد دونوں ملازمت کرتے ہیں لہذا مارک کی دیکھ بھال کی ذمہ داری میرے سپرد ہے''۔
انھوں نے مارک کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ،''میرے تو جینے کا مقصد یہ ہی بچہ ہے جس کے ساتھ نا جانے مجھ میں بھی کہاں سے توانائی آجاتی ہے۔''
’جانی‘ پانچویں جماعت کا طالب علم ہے، وہ کہتا ہے''میری دادی مجھے پچھلے پانچ سالوں سے اسکول لے کر آتی ہیں اور میں آج تک کبھی اسکول میں دیر سے نہیں پہنچا ہوں''۔
جانی کی دادی رومانیہ کی رہنے والی ہیں جنھیں انگریزی بہت کم آتی ہے۔ جانی نے بتایا ’’اس کی دادی گھر کا سارا کام کرتی ہیں اور کبھی شکایت یا غصہ نہیں کرتیں‘‘۔ وہ انھیں اپنی سب سے عزیز ہستی مانتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اپنی دادی کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔
ایک دوسری تحقیق میں والدین کو اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ، ایسے والدین جنھیں اپنے بچے کی پرورش کرنے میں اپنے والدین کی مدد حاصل ہوتی ہے وہ نہ صرف خوش قسمت ہیں بلکہ اپنے بوڑھے والدین کی بدولت سالانہ ایک بڑی رقم محفوظ کر لیتے ہیں ۔
جن گھروں میں بچوں کی دیکھ بھال کا فرض بزرگ ادا کرتے ہیں ایسے گھروں میں سالانہ تقریباً 4 ہزار پاؤنڈ کی بچت ہوتی ہے جو وہ کسی چائلڈ ڈے کیئر کو ادا کرتے۔ اسی طرح بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے اسکول جانے کی عمر تک یہ بزرگ بچوں کی دیکھ بھال میں تقریباً 5 ہزار سے زائد گھنٹے صرف کر چکے ہوتے ہیں۔ یعنی اس دوران والدین تقریباً 21 ہزار پاؤنڈ کی رقم بچا لیتے ہیں ۔
گھر کے بزرگ نہ صرف بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے اچھے پکوان اور اسنیکس بھی تیار کرتے ہیں، پارک لے کر جانا ،پڑھانا، اور رات میں کہانیاں بھی سناتے ہیں جہاں ان کی پیار بھری آغوش میں بچہ اپنے والدین کی کمی محسوس نہیں کرتا ہے ۔
تحقیق میں شامل ہر دس میں سے چھ والدین نے کہا کہ ، انھیں اس خیال سے خوف آتا ہے کہ ،کبھی ان کے والدین ان کے ساتھ نہیں ہوں گے ۔
جبکہ 33 فیصد ملازمت پیشہ والدین نے حتمی طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ ،اگر ان کے والدین نہ رہے تو، وہ اپنی ملازمت سے دستبردار ہو جائیں گے اور گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کریں گے۔