شمسی توانائی سے چلنے والے طیارے 'سولر امپلس 2' کو موسم کی خرابی کےباعث بحرالکاہل عبور کرنے کی کوشش ترک کرکے جاپان میں اترنا پڑا ہے۔
کسی ایندھن کے بغیر اڑنے والے اس سولر طیارے کے خالق برٹرینڈ پیکارڈ نے پیر کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ موسم بہت خراب ہورہا ہے جس کے باعث سفر مکمل کرنے کا ان کا جوش مایوسی میں تبدیل ہوگیا ہے۔
برٹرینڈ پیکارڈ کے بقول وہ جہاز کو مغربی جاپان کے جزیرے ناگویا میں اتار رہے ہیں جہاں جہاز اور ان کی ٹیم رک کر موسم بہتر ہونے کا انتظار کریں گے۔
'سولر امپلس 2' سوئٹزرلینڈر کے دو سائنس دانوں پیکارڈ اور آندرے بورش برگ کی تخلیق ہے جنہوں نے اسے 12 سال کی محنت کے بعد تیار کیا ہے۔
دونوں سائنس دان شمسی توانائی کے سہارے اڑنے والے اپنے طیارے کے ساتھ دنیا کے گرد چکر لگانے کے مشن پر ہیں اور بحرالکاہل پر ان کی پرواز کو اس مشن کا سب سے مشکل حصہ قرار دیا جارہا ہے۔
'سولر امپلس 2' نے بحرالکاہل عبور کرنے کے اپنے مشن کا آغاز اتوار کو چین کے مشرقی شہر نانجنگ سے کیا تھا جہاں سے اسے 8500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے امریکی جزیرے ہوائی پہنچنا تھا۔
اتوار کو بھی جہاز کی روانگی موسم کی خرابی کے باعث کئی بار تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔دنیا کے گرد چکر لگانے کے دوران جہاز 12 مرحلوں کے دوران کل 35000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا جب کہ بحرالکاہل پر پرواز اس کے اس مشن کا ساتواں مرحلہ ہے۔
ایک نشست والے اس طیارے کے پر 72 میٹر طویل ہیں جو بوئنگ 747 سے بھی لمبے ہیں جب کہ اس کا وزن ایک عام کار کے برابر ہے۔
جہاز کے لمبے پروں پر 17 ہزار سولر سیل نصب ہیں جو دھوپ کو شمسی توانائی میں تبدیل کرتے ہیں جسے جہاز بطور ایندھن استعمال کرتا ہے۔
جہاز کے خالق سوئس سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کے اس مشن کا مقصد ایوی ایشن کی صنعت میں کوئی انقلاب لانا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع اور نئی ٹیکنالوجیز وہ کام بھی انجام دے سکتے ہیں جنہیں بعض لوگوں ناممکن سمجھتے ہیں۔
جہاز نے اپنے سفر کا آغاز مارچ میں ابوظہبی سے کیا تھا اور اومان، بھارت اور میانمار میں رکتا ہوا گزشتہ ماہ چین پہنچا تھا۔
چین میں جہاز اور اس کی ٹیم کو موسم کی خرابی اور اگلے مرحلے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک ماہ تک رکنا پڑا تھا۔
سفر کے اگلے مرحلے میں جہاز ہوائی پہنچنے کے بعد امریکہ میں فینکس، ایریزونا، نیویارک سٹی اور ایک اور مقام پر ٹہرے گا جس کا انتخاب موسم کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
امریکہ سے جہاز بحرِ اوقیانوس کو عبور کرکے جنوبی یورپ یا شمالی افریقہ جائے گا جہاں سے واپس جولائی یا اگست میں ابوظہبی پہنچ کر اس کا سفر مکمل ہوجائے گا۔