صادق ایجرٹن کالج میں اپنے استاد کے قتل کے مبینہ الزام پر حراست میں لئے گئے ملزم، خطیب حسین کو اپنے کسی اقدام پر ملال نہیں۔
بہاول پور میں پولیس نے صادق ایجرٹن کالج کے ایک 19 سال کے طالب علم کو حراست میں لے لیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے استاد اور کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کو مبینہ طور پر اس لئے قتل کیا چونکہ ایک دن بعد کالج میں ہونے والی طلبا و طالبات کی مخلوط استقبالیہ پارٹی پر اعتراض تھا۔
شعبہ انگریزی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر خالد حمید کے بیٹے ولید خان کی طرف سے پولیس تھانہ سول لائینز کو دی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کے والد پروفیسر خالد حمید پر ایک طالب علم خطیب حسین نے مبینہ طور پر اس وقت چھریوں سے حملہ کیا، جب وہ کالج میں اپنے کلاس روم میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ زخمی ہوگئے، جنھیں اسپتال لے جایا گیا۔ لیکن وہ جان کی بازی ہار گئے۔
درخواست کے مطابق، ملزم نے قاتلانہ حملہ کے بعد بڑھکیں لگا کر کہا کہ ’’21 مارچ کو ہونے والی ویلکم پارٹی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جس میں فحاشی کو فروغ دیا جانا ہے۔ میں نے اس لئے خالد حمید کو قتل کر دیا ہے، چونکہ وہ اس فنکشن کی حمایت کرتا تھا‘‘۔
ایک طالب علم کی طرف سے اپنے ہی استاد کو قتل کر دینا تعلیمی اداروں میں بھی بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رجحان ہے، اور انتہا پسندی کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس سوال کے جواب میں سینئر اساتذہ مختلف رائے رکھتے ہیں۔
ذکریا یونیورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد کے مطابق ’’کالجز اور یونیورسٹیز میں کچھ طالب علم نارمل نہیں ہوتے۔ لیکن کیا ہم ان پر نظر رکھ رہے ہوتے ہیں۔ شاید ایسا نہیں ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ادارے کے استاد کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر طالب علم کو اتنا وقت دے کہ اس کی ذہنی اور دماغی حالت پر کام کر پائے۔ ’’یہ ادارہ کے اندر موجود ڈائریکٹر آف اسٹوڈنٹ افئیرز کی بھی ذمہ داری ہے۔ لیکن، وہ بھی ایسا نہیں کرتے‘‘۔
ڈاکٹر انوار احمد کا کہنا تھا، ’’ایک دبلا پتلا اور سوکھا سا بچہ میں اس طرح طاقت کس طرح آ سکتی ہے کہ وہ چھریاں مارے۔ ہاں، جب تک اسے ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ نہ بنایا گیا ہو۔ وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھا ہو گا، جو اسے اکسا رہے تھے۔ وہ اس کے ساتھی طالب علم بھی ہو سکتے ہیں اور اس استاد کے کالج میں ایک دو مخالف استاد بھی۔‘‘
ماہرین نفسیات کے مطابق، ’’اس کیس میں بہت سے پہلو دیکھنے پڑیں گے کہ پس منظر کیا ہے۔ ملزم کی شخصیت کی تشکیل اور اس میں منفی پہلو کیسے آئے ہیں۔ ایک انتہائی قدم پر وہ کیوں گیا ہے اور اس میں انتہاپسندی کیسے آئی‘‘۔
پروفیسر خالد سعید کے مطابق، ’’مذہب کا معاملہ لوگوں کی تفہیم کا بھی ہے۔ اگر آپ متفق نہیں تو آپ اسے کیسے ہینڈل کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے ذہن میں مذہب کی تفہیم اور اس کو درست سمجھنا اور پھر اس کے کسی ردعمل کو روکنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر روک نہیں سکتے تو اس کو مینیج کیسے کریں۔ اور یہ مسئلہ صرف بہاولپور کا نہیں، عالمی ہے۔ امریکہ کا بھی ہے اور یورپ کا بھی۔ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور ہر کوئی ہر کسی کے خلاف لگ رہا ہے‘‘۔
صادق ایجرٹن کالج میں اپنے استاد کے قتل کے مبینہ الزام پر حراست میں لئے گئے ملزم، خطیب حسین کو اپنے کسی اقدام پر ملال نہیں۔ اس کے خیال میں، اس نے جو بھی کیا درست کیا۔ ملزم کو اپنے اس عمل کا ذرا بھی پچھتاوا نہیں ہے۔
پولیس اس واقعہ کی تفتیش میں اس بات کو سامنے رکھ رہی ہے کہ ملزم نے یہ اقدام کس کے اکسانے پر کیا اور یہ بھی کہ اس انتہائی قدم پر اس کی کس سے مشاورت رہی۔
کالج کی اس ویلکم پارٹی کی تیاریاں پچھلے کئی دن سے چل رہی تھیں اور دو دن پہلے بغیر دستخط سے ایک کمپوز شدہ لیٹر بھی کالج میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں ڈپٹی کمشنر بہاول پور سے کہا گیا تھا کہ ’’شعبہ انگریزی کے سالانہ فنکشن میں بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس سے کالج کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اور یہاں کہ تعلیمی ادارے ہماری تربیت گاہیں ہیں اس تقریب کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘