بحرین میں حالیہ احتجاجی تحریک کے دوران پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرنے والے خصوصی کمیشن نے قرار دیا ہے کہ احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے حکومت نے طاقت کا ناجائز استعمال کیا تھا جب کہ اس دوران گرفتار کیے جانے والے افراد کو دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کمیشن کے سربراہ شریف بسیونی نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی تحقیقات کے نتائج کا اعلان کیا جس کا مقصد رواں برس کے ابتدائی مہینوں کے دوران شیعہ مظاہرین کی جانب سے ملک میں مزید جمہوری اصلاحات کے حق میں کیے گئے مظاہروں اور ان پر حکومتی ردِ عمل کا جائزہ لینا تھا۔
تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پانچ ہزار سے زائد افراد کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جب کہ اسے بحرینی حکومت کی منظوری حاصل ہے ۔
گو کہ کمیشن نے حکومت کو مظاہرین کے خلاف کی گئی کاروائیوں میں طاقت کے بے جا استعمال کا مرتکب ٹہرایا ہے لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بحرین میں بدامنی پر قابو پانے کے لیے تعینات کیے گئے خلیجی ممالک کے فوجی دستوں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں۔
یاد رہے کہ احتجاجی تحریک کے دورن حالات قابو سے باہر ہوجانے کے بعد بحرین کی سنی حکمرانوں نے رواں برس مارچ میں ملک میں قیامِ امن کے لیے پڑوسی ممالک کے فوجی دستے طلب کرلیے تھے۔
بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے رپورٹ میں ان پہلووں کی نشان دہی پر کمیشن کا شکریہ ادا کیا ہے جن میں، ان کے بقول، حکام کو بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
اپنے ردِ عمل میں بادشاہ نے رپورٹ کو "مثبت تبدیلی کی جانب سفر کو تیز کرنے کا عمل" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غلطیاں دہرانے سے بچنے کے لیے حکومت کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔
تاہم رپورٹ کے اجرا سے کچھ گھنٹوں قبل بحرین کے کم از کم دو شیعہ اکثریتی قصبوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہرین کے خلاف مارچ میں کیے گئے بڑی کریک ڈائون کے دوران تین ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں لگ بھگ نصف کو دورانِ حراست تشدد کے مختلف ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔