لندن —
بحرین میں کاروں کی گرینڈ پری ریس قریب آ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت مخالف احتجاجیوں نے اپنے مظاہرے تیز کر دیے ہیں۔ جمعہ کو مناما میں کار بم کا جو دھماکہ ہو ا تھا اس کی ذمہ داری نوجوانوں کے ایک گروپ نے قبول کی ہے۔ اس دھماکے میں کوئی زخمی نہیں ہوا ۔ بعض برطانوی قانون سازوں نے فارمولا ون کے سربراہ سے کہا ہے کہ وہ یہ ریس منسوخ کر دیں ۔
سترا کے جزیرے پر جو مناما کے جنوب میں واقع ہے، حکومت مخالف احتجاجیوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان آٹھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جھڑپیں ہوتی رہیں۔
سرگرم کارکنوں نے جو بحرین کی شیعہ اکثریت کے لیے زیادہ سیاسی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں، اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ہفتے تک ہنگامے کرتے رہیں گے تا کہ یہ ریس منعقد نہ ہونے پائے۔ کاروں کی اس ریس کو جس پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوتی ہیں، اس ملک کے کھیلوں کے کیلنڈرمیں اہم ترین مقام حاصل ہے ۔ احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس ریس سے حکومت کو بین الاقوامی سطح پر ایسے وقت میں با وقار مقام مل جاتا ہے جب بحرین میں انسانی حقوق کو انتہائی سنگدلی سے کچلا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر نادا ضیعف ایک شیعہ سرگرم کارکن ہیں جنہیں دو سال قبل زخمی ہو جانے والے احتجاجیوں کا علاج کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ وہ کہتےہیں ’’ ہم مارشل لا کی سی صورت حال میں رہ رہے ہیں جس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ آپ کہیں بھی جانا چاہیں، آپ کی تلاشی لی جاتی ہے، آپ کو روکا جاتا ہے ۔ بحرین میں تمام شیعہ گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے ۔ احتجاج ہو یا نہ ہو، روزانہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
بحرین کی حکومت کے خلاف جس پر سنیوں کا کنٹرول ہے، شیعہ اکثریت کی طرف سے احتجاج فروری 2011 میں پھوٹ پڑے تھے ۔ یہ عرب موسمِ بہار کے عروج کا دور تھا ۔
احتجاجی مظاہرے، اور حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کارروائیاں فارمولا ون ریس سے قبل اور تیز ہو گئی ہیں۔
بحرین میں پبلک سیکورٹی کے چیف، طارق الحسن کہتے ہیں ’’یقیناً ایسے لوگ موجود ہوں گے جو اس ریس کے پروگرام سے خوش نہیں ہوں گے، یا جن کا اپنا ایجنڈا ہو گا ۔ لیکن ہمیں کسی بھی اطلاع یا کسی کے کچھ بھی کہنے کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ہم نے تمام احتیاطی تدابیر کر لی ہیں، اور ہم پوری طرح تیار ہیں ۔‘‘
بحرین کی کابینہ چاہتی ہے کہ بادشاہ یا قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے پر پانچ سال قید تک کی سزا ئیں عائد کر دی جائیں۔ اس قسم کے الزامات عام طور سے حزبِ اختلاف کے احتجاجیوں کے خلاف عائد کیے جاتے ہیں ۔
برطانیہ میں، قانون سازوں کے ایک گروپ نے فارمولا ون کے حکام کو لکھا ہے کہ یہ ریس منسوخ کر دی جائے ۔ اس گروپ کے چیئر مین اینڈی سلاٹر کہتے ہیں ’’بحرین کی ڈکٹیٹر شپ فارمولا ون کی ریس کو یہ تاثر دینے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔ آپ یہاں آ سکتےہیں اور کھیل کا ایک بڑا مقابلہ دیکھ سکتے ہیں اور لوگ امن و امان سے رہ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بحرین میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کے لیے پورے سال یہ بات صحیح نہیں ہوتی، اور خاص طور سے گرینڈ پری کے زمانے میں تو پورے ملک میں زندگی مفلوج ہو جاتی ہے، جب آپ کو ہر طرف بکتر بند گاڑیاں، خار دار تار، آنسو گیس سے سابقہ پڑتا ہے۔‘‘
لیکن سرگرم کارکن ڈاکٹر نادا ضیعف کہتے ہیں کہ اس ریس کی وجہ سے میڈیا میں بحرین کے بارے میں بہت کچھ شائع ہوتا ہے جو بہت ضروری ہے۔ ’’اگر یہ ریس ہوتی ہے، تو ہمیں اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیئے۔ ہمیں دنیا کو دکھانا چاہیئے کہ اصل صورتِ حال کیا ہے، بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اور اگر یہ ریس منسوخ ہو جاتی ہے، تو پھر اس کا بھی پراپیگنڈہ ہوتا ہے، اور دونوں صورتوں میں یہ ہمارے لیے مفید ہے۔‘‘
فارمولا ون کے صدر بیرنی ایکسلسٹون نے بحرین کے حکومت مخالف احتجاجیوں سے ملنے کی پیش کش کی ہے۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ ریس ضرور ہو گی۔
سترا کے جزیرے پر جو مناما کے جنوب میں واقع ہے، حکومت مخالف احتجاجیوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان آٹھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جھڑپیں ہوتی رہیں۔
سرگرم کارکنوں نے جو بحرین کی شیعہ اکثریت کے لیے زیادہ سیاسی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں، اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ہفتے تک ہنگامے کرتے رہیں گے تا کہ یہ ریس منعقد نہ ہونے پائے۔ کاروں کی اس ریس کو جس پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوتی ہیں، اس ملک کے کھیلوں کے کیلنڈرمیں اہم ترین مقام حاصل ہے ۔ احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس ریس سے حکومت کو بین الاقوامی سطح پر ایسے وقت میں با وقار مقام مل جاتا ہے جب بحرین میں انسانی حقوق کو انتہائی سنگدلی سے کچلا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر نادا ضیعف ایک شیعہ سرگرم کارکن ہیں جنہیں دو سال قبل زخمی ہو جانے والے احتجاجیوں کا علاج کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ وہ کہتےہیں ’’ ہم مارشل لا کی سی صورت حال میں رہ رہے ہیں جس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ آپ کہیں بھی جانا چاہیں، آپ کی تلاشی لی جاتی ہے، آپ کو روکا جاتا ہے ۔ بحرین میں تمام شیعہ گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے ۔ احتجاج ہو یا نہ ہو، روزانہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
بحرین کی حکومت کے خلاف جس پر سنیوں کا کنٹرول ہے، شیعہ اکثریت کی طرف سے احتجاج فروری 2011 میں پھوٹ پڑے تھے ۔ یہ عرب موسمِ بہار کے عروج کا دور تھا ۔
احتجاجی مظاہرے، اور حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کارروائیاں فارمولا ون ریس سے قبل اور تیز ہو گئی ہیں۔
بحرین میں پبلک سیکورٹی کے چیف، طارق الحسن کہتے ہیں ’’یقیناً ایسے لوگ موجود ہوں گے جو اس ریس کے پروگرام سے خوش نہیں ہوں گے، یا جن کا اپنا ایجنڈا ہو گا ۔ لیکن ہمیں کسی بھی اطلاع یا کسی کے کچھ بھی کہنے کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ہم نے تمام احتیاطی تدابیر کر لی ہیں، اور ہم پوری طرح تیار ہیں ۔‘‘
بحرین کی کابینہ چاہتی ہے کہ بادشاہ یا قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے پر پانچ سال قید تک کی سزا ئیں عائد کر دی جائیں۔ اس قسم کے الزامات عام طور سے حزبِ اختلاف کے احتجاجیوں کے خلاف عائد کیے جاتے ہیں ۔
برطانیہ میں، قانون سازوں کے ایک گروپ نے فارمولا ون کے حکام کو لکھا ہے کہ یہ ریس منسوخ کر دی جائے ۔ اس گروپ کے چیئر مین اینڈی سلاٹر کہتے ہیں ’’بحرین کی ڈکٹیٹر شپ فارمولا ون کی ریس کو یہ تاثر دینے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔ آپ یہاں آ سکتےہیں اور کھیل کا ایک بڑا مقابلہ دیکھ سکتے ہیں اور لوگ امن و امان سے رہ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بحرین میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کے لیے پورے سال یہ بات صحیح نہیں ہوتی، اور خاص طور سے گرینڈ پری کے زمانے میں تو پورے ملک میں زندگی مفلوج ہو جاتی ہے، جب آپ کو ہر طرف بکتر بند گاڑیاں، خار دار تار، آنسو گیس سے سابقہ پڑتا ہے۔‘‘
لیکن سرگرم کارکن ڈاکٹر نادا ضیعف کہتے ہیں کہ اس ریس کی وجہ سے میڈیا میں بحرین کے بارے میں بہت کچھ شائع ہوتا ہے جو بہت ضروری ہے۔ ’’اگر یہ ریس ہوتی ہے، تو ہمیں اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیئے۔ ہمیں دنیا کو دکھانا چاہیئے کہ اصل صورتِ حال کیا ہے، بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اور اگر یہ ریس منسوخ ہو جاتی ہے، تو پھر اس کا بھی پراپیگنڈہ ہوتا ہے، اور دونوں صورتوں میں یہ ہمارے لیے مفید ہے۔‘‘
فارمولا ون کے صدر بیرنی ایکسلسٹون نے بحرین کے حکومت مخالف احتجاجیوں سے ملنے کی پیش کش کی ہے۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ ریس ضرور ہو گی۔