پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں حکام نے بتایا ہے کہ جمعرات کی صبح افغان سرحد عبور کر کے آنے والے عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں خواتین سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ درجنوں حملہ آوروں نے افغان سرحد کے قریب ماموند کے علاقے میں حکومت کے حامی قبائلی امن لشکر میں شامل رضا کاروں کے گھروں کو نشانہ بنایا۔ حملے میں تین خواتین اور دو مرد ہلاک ہوئے جب کہ مزید دو خواتین کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
مقامی حکام نے بتایا کہ شدت پسند افغان سرحد عبور کر کے باجوڑ میں داخل ہوئے اور وہ مارٹر گولوں، دستی بموں اور مشین گنوں سے لیس تھے۔
اطلاعات کے مطابق امن لشکر کے اراکین نے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے جب کہ متاثرہ علاقے کے قریب پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ایک اڈے سے بھی جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم فوری طور پر اس لڑائی میں شدت پسندوں کے جانی نقصانات کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔
اس سے قبل رواں ماہ سینکڑوں عسکریت پسندوں نے افغان سرحد عبور کرکے پاکستان کے شمال مغربی ضلع دیر بالا میں ایک سرحدی چوکی پر حملہ کیا تھا اور 24 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی لڑائی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا تھا کہ حملہ آور افغان صوبہ کُنڑ سے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے تھے جس پر اسلام آباد میں افغان سفیر کو وزرات خارجہ طلب کر کے اس واقعے پر شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ اسلام آباد کے دوران اُن سے ایک نیوز کانفرنس میں ضلع اپر دیر میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر سرحد پار افغانستان سے آنے والے جنگجوؤں کے حملے کے بارے میں سوال پوچھا گیا جس کا براہ راست جواب دینے کی بجائے کہ صدر کرزئی نے کہا تھا کہ ایسے حملے یقینا باعث تشویش ہیں اور اگر جنگجوؤں کے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کے الزامات درست ثابت ہوئے تو افغان حکومت اپنی جانب کارروائی بھی کرے گی اور ایسے حملوں کا تدارک بھی کیا جائے گا۔
تاہم اُن کا کہنا تھا سرحد کے آر پار دہشت گردوں کی آمدورفت ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔