کراچی میں پانچ اگست کو ہائی کورٹ کی جانب سے چنگ چی رکشے پر پابندی کے بعد ’عام آدمی‘ کی تکالیف میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مسافروں کو کئی کئی گھنٹے خالی بسوں کے انتظار میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ وہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت بہتر بنانے کے لئے بنائے جانے والے منصوبے سالوں بعد بھی کاغذی پلندوں سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔
چنگ چی کی بندش کے بعد بسوں اور ویگنوں میں مسافروں کی تعداد اچانک ڈبل سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ لوگ گھنٹوں تک بس اسٹاپوں پر بسوں اور ویگنوں کے منتظر رہتے ہیں اور تھک ہار کر انہیں چھتوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔
پانچ سالوں کے دوران بسوں اور منی بسوں کے 250 سے زائد روٹس بند ہو چکے ہیں۔ ہفتے میں تین، تین دن سی این جی بند رہتی ہے، جس کے سبب ان تین دنوں میں شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کہیں بھی جانا عذاب ہوجاتا ہے۔
کراچی کے ایک شہری گلزار صنم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ، ’ٹریفک پولیس نے چنگ چی بند کرانے کا فیصلہ عوام کو متبادل حل دیئے بغیر کیا ہے۔ چنگ چی سے عوام کو سفر میں سہولت تھی، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن، اچانک پابندی سے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے‘۔
ٹاوٴن پلانرز اور ماہرین کا خیال ہے کہ شہر کو عوامی سواری کی انتہائی ضرورت ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران، چنگ چی چلنے کے سبب 250 سے زیادہ بسیں اور ویگنوں کے روٹس بند ہوگئے جس سے مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
مبصرین اور تجریہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شہر کی آبادی اندازاً ڈھائی کروڑ کے ہندسوں کو چھو رہی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود ارباب اختیار، سرخ فیتے اور عدم دلچسپی کے سبب شہر میں اب تک نہ تو ماس ٹرانزٹ نظام قائم ہو سکا ہے، نہ ہی سرکلر ریلوے بحال ہوسکا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرین بس، میٹرو بس، بلولائنز، اورنج لائنز جیسے منصوبے شروع کرنے کی خبریں تو ضرور آتی ہیں، لیکن عملاً ابھی تک یہ منصوبے کاغذی کارروائی سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔