بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ایک کارٹونسٹ پر پولیس تشدد کے الزامات پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کارٹونسٹ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور عدالتی احکامات اتوار کے روز جاری ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، کارٹونسٹ، احمد کبیر کشور کو مئی دوہزار بیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پینتالیس سالہ احمد کبیر پر مبینہ طور پر ریاست مخالف سرگرمیوں اور افواہیں پھیلانے میں ملوث ہونے کا الزام ہے ۔
بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے کارٹونسٹ احمد کبیر کشور کو دو ہفتے قبل رہا کیا تھا۔ ان کی ضمانت پر رہائی ایک بنگلہ دیشی مصنف مشتاق احمد کی جیل میں ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں عمل میں آئی، جنہیں اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
احمد کبیر کشور کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں اور مشتاق احمد کو ایک ہی جیل میں بند کیا گیا تھا، اور یہ کہ مصنف مشتاق احمد کو بھی نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم حکام نے ایسے کسی تشدد سے قطعی طور پر انکار کیا۔
بدھ کے روز احمد کبیر کشور نے ڈھاکہ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ سال دو مئی کو انہیں ایک درجن سے زیادہ اجنبی افراد نے بری طرح زد و کوب کیا، تھپڑ مارےاور اغوا کر کے تین روز تک اپنی تحویل میں رکھا۔
کارٹونسٹ کا کہنا تھا کہ ان نا معلوم افراد نے ایک طاقتور کاروباری شخصیت پر ان کے طنزیہ کارٹونوں اورکرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے حکومتی اقدامات پر ان کے تنقیدی کارٹونوں کے بارے میں بھی سوال جواب کئے۔ بقول احمد کبیر، تین روز بعد، ان نامعلوم افراد نے اِنہیں پولیس کے ایک ایلیٹ یونٹ کے حوالے کر دیا۔
کارٹونسٹ کی وکیل، جیوتی رموئے بارو نے بتایا کہ درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے، عدالت نے پولیس کی خصوصی تفتیشی سروس کو حکم دیا کہ وہ مبینہ الزامات کی تحقیق کر کے پندرہ اپریل تک اپنا جواب دائر کرے۔
وکیل نے یہ بھی بتایا کہ عدالت نے ڈھاکہ ہسپتال کے تین ڈاکٹروں کو حکم دیا ہے کہ وہ احمد کبیر کشور کا معائنہ کریں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ہفتے کے روز کبیر کے داہنے کان کا آپریشن کیا گیا، کیونکہ ان کے کان کو ان پر ہونے والے تشدد کے دوران نقصان پہنچا تھا۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے ایک مصنف مشتاق احمد کی جیل میں ہلاکت پر ، وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف کئی روز تک مظاہرے ہوتے رہے تھے۔ بنگلہ دیش میں مظاہرین ڈیجیٹل میڈیا پر عائد قوانین کی منسوخی کا بھی مطالبہ کر رہے تھے، جن کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ اختلاف کو دبانے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔۔
امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ان قوانین کے سخت ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔