بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ایک ٹربیونل نے سابق وزیر کو 1971ء میں ملک کی جنگ آزادی کے دوران ظلم و زیادتی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی ہے۔
73 سالہ سید محمد قیصر پر نسل کشی، جنسی زیادتی، بھتہ خوری اور تشدد سمیت 16 الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں سے انھیں 14 جرائم کا مرتکب قرار دیا۔
قیصر خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے وکیل سید محمد شاہ جہان نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے موکل کو "مناسب انصاف" نہیں ملا اور وہ سزا کے خلاف اپیل کریں گے۔
وکیل استغاثہ طورین افروز نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ جنسی زیادتی کے زخم گولیوں کے زخموں سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔
خصوصی ٹربیونل نے جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کا آغاز 2010ء میں کیا تھا، یہ ٹربیونل وزیراعظم شیخ حسینہ نے قائم کیا تھا۔
شیخ حسینہ کی حریف سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اُن کی اتحادی پارٹی ’جماعت اسلامی‘ کا یہ موقف رہا ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ ٹربیونل کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ ٹربیونل مقدمات کی سماعت کے دوران انصاف کے عالمی معیار کے تقاضے پورے نہیں کر سکا، البتہ بنگلہ دیش کی حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔
ٹربیونل اب تک 15 افراد کو سزائیں سنا چکا ہے جن میں سے 13 کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک شخص کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔
بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے رہنما دلاور حسین کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ٹربیونل کے فیصلوں کے خلاف ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے جن میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔