بنگلہ دیش کے وزیرِ اطلاعات حسن الحق اینو نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں "انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں" پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک بلوچستان سے متعلق جلد اپنی پالیسی کا باضابطہ اعلان کرے گا۔
گزشتہ ہفتے دورۂ بھارت کے دوران بھارتی روزنامے 'دی ہندو' سے گفتگو کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیر نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان، پاکستان کی اسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھگت رہا ہے جس نے 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام سے قبل مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو نشانہ بنایا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مختلف قومیتوں کی تحفظات دور کرنے سے متعلق پاکستان کا ریکارڈ بہت ہی خراب ہے اور اس نے 1971ء میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنے جبری ہتھکنڈے بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں جن کا نشانہ، ان کے بقول، آج کل بلوچ قوم پرست بن رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے وزیرِ اطلاعات نے بلوچستان کی صورتِ حال سے متعلق یہ بیان گزشتہ ہفتے بھارت کے تین روزہ دورے کے دوران دیا۔ ان کے اس بیان سے ایک روز قبل بھارت کے وزیرِِ مملکت برائے خارجہ ایم جے اکبر نے بھی بلوچستان کی صورتِ حال کو مشرقی پاکستان جیسی قرار دیتے ہوئے اس پر تشویش ظاہر کی تھی۔
دریں اثنا پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بنگلہ دیشی وزیر کے بیان پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات بنگلہ دیشی ہائی کمشنر طارق احسن نے بنگلہ دیشی اخبارات کو بتایا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں جنوبی ایشیا اور سارک سے متعلق وزارت کے ڈائریکٹر جنرل نے انہیں جمعے کو دفترِ خارجہ طلب کیا تھا۔
بنگلہ دیشی سفیر کے مطابق ڈائریکٹر جنرل نے ان سے وزیرِ اطلاعات کے بیان کی وضاحت طلب کی اور اس بیان پر بنگلہ دیش کی حکومت کا باضابطہ موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔
طارق احسن کے بقول انہوں نے پاکستانی حکام کو بتایا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اپنی وزارت سے بات کرنے کے بعد پاکستان کو بنگلہ دیش کی حکومت کے باضابطہ موقف سے آگاہ کردیں گے۔
بنگلہ دیش بلوچستان کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرنے والا خطے کا دوسرا ملک ہے۔ اس سے قبل بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 15 اگست کو نئی دہلی میں بھارت کے یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا تھا اور وہاں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک کی حمایت کا عندیہ دیا تھا۔
پاکستان کی حکومت نے نریندر مودی کے اس بیان پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک اور حالیہ تشدد سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری کشیدگی کی حالیہ لہر کے دوران اب تک 50 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور معمولاتِ زندگی مفلوج ہیں۔ وادی کے بیشتر شہروں اور قصبوں میں کئی ہفتوں سے کرفیو نافذ ہے لیکن اس کے باوجود بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔
حسن الحق اینو بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم بیگم حسینہ واجد کی حکومت میں وزیرِ اطلاعات اور حکومتی اتحاد میں شامل بائیں بازو کی جماعت 'جاتیو سماج تانترک پارٹی' کے سربراہ ہیں۔
'دی ہندو' کے مطابق حسن الحق پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران پاکستانی فوج سے لڑنے والی مزاحمت کار تنظیم مکتی باہنی کے رہنما رہ چکے ہیں جسے خود بھارتی وزیرِاعظم مودی کے بیان کے مطابق بھارت کی مدد حاصل تھی۔
اخبار 'دی ہندو' کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بنگلہ دیشی وزیر نے مزید کہا کہ پاکستان نے اپنے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی فوج اب تک ریاستِ پاکستان کے بنیادی معاملات میں مداخلت کرتی ہے جس کے باعث وہاں اب تک صحیح جمہوریت نہیں پنپ سکی۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو انتہائی تشویش ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کو فروغ دینے اور اپنی حدود میں آباد مختلف قومیتوں سے متعلق اس کی پالیسیوں کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور وہ ان دونوں معاملات پر پاکستان سے وضاحت کے طلب گار ہیں۔
حسن الحق اینو کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت آئینی طور پر پابند ہے کہ وہ دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرے اور اسی لیے وہ جلد بلوچستان سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کرے گی۔
لیکن نہ تو 'دی ہندو' کے لیے انٹرویو لینے والوں نے بنگلہ دیشی وزیر سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک پر ان کی حکومت کے موقف سے متعلق سوال کیا اور نہ ہی حسن الحق اینو نے خود اس بارے میں کوئی بات کی۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا بنگلہ دیش کی حکومت اپنی مذکورہ آئینی ذمہ داری کے تحت بھارتی کشمیر میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک کی بھی حمایت کرتی ہے یا نہیں۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان قربت اور دو طرفہ تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور حسینہ واجد حکومت کو جنوبی ایشیا میں بھارت کا قریب ترین اتحادی سمجھا جاتا ہے۔