بنگلہ دیش کی عدالت عظمیٰ نے مذہبی و سیاسی جماعت کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی کو جنگی جرائم میں سنائی گئی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما کو 1971ء میں ہوئی جنگ آزادی کے دوران جنسی زیادتی، دانشوروں اور دیگر کے قتل عام میں معاونت کے الزام میں 2014ء میں خصوصی ٹربیونل نے یہ سزا سنائی تھی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کے بعد اٹارنی جنرل محب عالم نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی "اے ایف پی" کو بتایا کہ "وہ مطمیئن ہیں۔ اب ان (مطیع الرحمن) کی پھانسی میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں سوائے اس کے کہ وہ صدر سے رحم کی اپیل کریں اور وہ یہ اپیل منظور کر لیں۔"
بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مجرموں کی طرف سے صدر کو کئی گئی اپیلیں عموماً نامنظور ہی کی جاتی رہی ہیں۔
73 سالہ نظامی کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے فی الوقت کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
مطیع الرحمن نظامی 2000ء میں جماعت اسلامی کے سربراہ مقرر ہوئے تھے اور 2001ء سے 2006ء تک مخلوط حکومت میں بطور وزیر بھی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان نواز البدر نامی ملیشیا بنانے کے ذمہ دار تھے جس نے بنگلہ دیش میں مصنفوں، ڈاکٹروں اور صحافیوں کو مبینہ طور پر قتل کیا۔
جماعت اسلامی اور حزب مخالف کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی طرف سے قائم کیے گئے خصوصی ٹربیونل کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتی آرہی ہیں کہ یہ سیاسی حریفوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں بھی ان ٹربیونلز کو انصاف کے بین الاقوامی معیار سے متصادم قرار دیتے ہوئے ان کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔
خصوصی ٹربیونل جنگی جرائم میں اب تک متعدد سیاسی رہنماؤں کو سزائے موت دے چکا ہے جن میں سے کئی ایک پر عملدرآمد بھی کیا جا چکا ہے۔