|
ویب ڈیسک — بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے کہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کی بھارت سے حوالگی کی کوشش کی جائے گی۔
شیخ حسینہ واجد اگست میں ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے بھارت میں کسی محفوظ مقام پر مقیم ہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس کا ٹیلی ویژن پر بیان اتوار کو ایسے موقع پر سامنے آیا جب ان کی عبوری حکومت کو 100 دن مکمل ہوئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عبوری حکومت طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج میں سینکڑوں اموات پر شیخ حسینہ سمیت دیگر ذمے داروں کے خلاف مقدمات چلائے گی۔
طلبہ کے احتجاج کے سبب شیخ حسینہ کے 15 برس سے جاری اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔
شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے پر آٹھ اگست کو ڈاکٹر محمد یونس نے عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔ اس سے تین دن قبل پانچ اگست کو شیخ حسینہ ملک سے فرار ہو کر بھارت پہنچی تھیں جہاں اب بھی وہ موجود ہیں۔
اتوار کو خطاب میں ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا تھا کہ احتجاج میں ہونے والی اموات سمیت انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی جائیں گی جن میں وہ جبری گمشدگیاں بھی شامل ہیں جب شیخ حسینہ اقتدار میں تھیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت بین الاقوامی پولیس ’انٹرپول‘ سے رابطہ کر چکی ہے تاکہ شیخ حسینہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاریوں کے لیے ریڈ نوٹس کا اجرا ہو سکے۔
ڈاکٹر محمد یونس کے بقول عبوری حکومت شیخ حسینہ کو بھارت سے حوالگی کی کوشش کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر پہلے ہی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر کریم خان سے تبادلۂ خیال کر لیا ہے۔
شیخ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کو بنگلہ دیش میں جہاں کئی الزامات میں مقدمات کا سامنا ہے۔ وہیں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت انٹرنیشنل کرمنل کورٹ پر زور دے رہی ہے کہ وہ اس معاملے کو اٹھائے۔
ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ ان کی عبوری حکومت کا سب سے اہم ترین کام نئے انتخابات کا انعقاد تھا تاکہ ایک منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا جا سکے۔
انہوں نے اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل واضح نہیں کیا کہ انتخابات اور اقتدار کی منتقلی کا عمل کتنے عرصے میں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت پہلے کئی شعبہ جات میں اصلاحات کر رہی ہے جن میں انتخابی نظام بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس نے ایک بار پھر عہد کیا کہ جب انتخابی اصلاحات مکمل ہو جائیں گی تو انتخابات کے روڈ میپ کا اعلان کر دیا جائے گا۔
انہوں نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں، خاص طور پر ہندوؤں پر حملوں کی رپورٹس کو ’مبالغہ آرائی‘ قرار دیا۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)