رسائی کے لنکس

بلوچستان: اسکول جانے کی عمر کے 19 لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے باہر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ حکومت اساتذہ کو تربیت بھی دے رہی ہے اور مفت کتابیں فراہم کرنے کے علاوہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں اسکول جانے کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد اب بھی تعلیم سے محروم ہے، جنہیں اسکولوں میں داخل کروانے کے لیے صوبائی حکومت نے کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبائی محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اس وقت سکول جانے کی عمر کے بچوں کی تعداد لگ بھگ 35 لاکھ ہے جن میں سے 13 لاکھ بچے سرکاری اور تین لاکھ نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اور لگ بھگ 19لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے دور ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے وائس آف امریکہ کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ صوبائی حکومت کے ٹھوس اقدامات کی بدولت گزشتہ سال ایک لاکھ اور رواں سال کے دوران ایک لاکھ 90 ہزار نئے بچوں نے سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں سرکاری اسکولوں میں بھی اچھی سہولتیں فراہم کر رہی ہے جب کہ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کو کم کرانے کے لیے بھی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کہنا تھا کہ حکومت اساتذہ کو تربیت بھی دے رہی ہے اور مفت کتابیں فراہم کرنے کے علاوہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

’’واقعاتاً تمام پرائیویٹ اسکولوں نے اپنی فیسیں بڑھائی ہیں اور بے تحاشا بڑھائی ہیں وہ حکومت کے نوٹس میں ہے ہم کوشش کریں گے اُن کو ہم پابند کریں ۔۔۔ پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں کو کم کرنا ہو گا۔‘‘

ممتاز ماہر تعلیم رحمت اللہ شاہوانی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب پر نظر ثانی اور اساتذہ کی سالانہ ترقی کو ان کی کارکردگی سے مشروط کرنے کی ضرورت ہے۔

’’حکومت نے بہت سے اقدامات اُٹھائے ہیں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی سپر وژن کے لیے مختلف جگہوں پر لیکن سرکاری اسکولوں کے طلبا کو مستقبل میں پرائیویٹ اداروں کے (طلبا کے) ساتھ مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ سر کاری تعلیمی اداروں میں بھی اگر آکسفورڈ کے کورسز پڑھائے جائیں تو یہی ادارے بہتر پرفارم کر کے پرائیویٹ اداروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔‘‘

قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے کے مختلف اضلاع میں اس وقت تک 2300 نجی تعلیمی ادارے قائم کئے جا چکے ہیں جن میں سے 800 ادارے صرف کوئٹہ میں کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان پرائیویٹ اسکولز کے جنرل سیکرٹری نذر بڑیچ کے مطابق ان نجی تعلیمی اداروں میں تین لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں جب کہ اُن کے بقول ان اداروں سے ہزاروں افراد کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔

ان کے بقول یہ تمام نجی تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں اور اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ادارو ں کی فیس کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ان نجی اداروں کی صرف عمارتوں کے کرائے کی مد میں کچھ مدد کرے تو یہ ادارے فیس کم کرنے کےلیے تیار ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG