رسائی کے لنکس

بھارت اور یورپین بلاک 'اِفٹا' میں 100 ارب ڈالر کا آزاد تجارت معاہدہ، نئی دہلی کو کتنا فائدہ ہو گا؟


  • بھارت نے حال ہی میں آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی آزاد تجارت معاہدہ کیا ہے۔
  • وزیرِ اعظم نریندر مودی نے معاہدے کو فریق ممالک کی معاشی ترقی کے سلسلے میں نیا موڑ قرار دیا ہے۔
  • بھارت کو امید ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں فارماسوٹیکل، گارمینٹس، کیمیکل اور مشینری وغیرہ کے شعبوں میں برآمدات میں اضافہ ہو گا۔

بھارت، سوئٹزر لینڈ، ناروے، آئس لینڈ اور لیفٹنشٹائن پر مشتمل چار ملکی گروپ ’یورپین فری ٹریڈ ایسوسی ایشن‘ (اِفٹا) کے درمیان اتوار کو آزاد تجارت معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت 15 برس کے دوران بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

اس معاہدے کے لیے گزشتہ 16 برس سے مذاکرات چل رہے تھے اور 12 ادوار کی بات چیت کے بعد اسے حتمی شکل دی گئی۔ اس کے نافذ العمل ہونے کے بعد بھارت کی جانب سے ان ملکوں کے لیے متعدد صنعتی مصنوعات پر محصول ختم کر دیا جائے گا۔

بھارت نے حال ہی میں آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی آزاد تجارت معاہدہ کیا ہے اور برطانیہ کے ساتھ معاہدے کے لیے کئی برس سے مذاکرات چل رہے ہیں جو کہ آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔

بھارت کے وزیرِ تجارت پیوش گوئل نے بھارت اور افٹا کے درمیان معاہدے کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا اور کہا کہ معاہدے کے بعد اس گروپ کے ملکوں کو تیزی سے ابھرتی ہوئی بھارتی معیشت تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

ان کے بقول برآمدات میں اضافہ، سرمایہ کاری کے فروغ اور روزگار پیدا ہونے کی وجہ سے تمام فریقوں کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ کھلے گا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے معاہدے کو فریق ممالک کی معاشی ترقی کے سلسلے میں نیا موڑ قرار دیا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ کھلی، آزاد اور مساوی تجارت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے ترقی اور روزگار پیدا کرنے کے ہمارے مشترکہ عزم کی علامت ہے۔

انھوں نے اس معاہدے کو فریقوں کے لیے مفید بتاتے ہوئے کہا کہ ہم تجارت و سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع کے ساتھ اعتماد اور امنگوں کی نئی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔

نئی دہلی میں واقع سوئس سفارت خانہ نے ایک بیان میں کہا کہ معاہدے سے دونوں طرف کے کاروباری افراد کو فائدہ ہو گا اور سپلائی چین کو بہتر، لچک دار اور مربوط بنایا جا سکے گا۔ اس سے سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔

افٹا وفد کی قائد اور سوئٹزرلینڈ کی وزیرِ تجارت ہیلین بڈریگر نے بھارت کے ایک اخبار ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افٹا ملک اس معاہدے کے قانونی طور پر پابند نہیں ہوں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس معاہدے کے 14 ابواب ہیں جن میں اشیا کی تجارت، سروسز میں تجارت، سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے تعاون اور تجارت میں تیکنیکی رکاوٹوں کو دور کرنے جیسے معاملات شامل ہیں۔

بھارت کی اُمیدیں

بھارت کو امید ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں فارماسوٹیکل، گارمینٹس، کیمیکل اور مشینری وغیرہ کے شعبوں میں برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ جب کہ آٹو موبائل، ڈبہ بند غذا، ریلویز اور فنانس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے بڑھنے کے امکانات ہوں گے۔

سوئس حکومت کے مطابق معاہدے سے مشینری، گھڑیوں اور ٹرانسپورٹ کی سوئس کمپنیوں کو فائدہ ہو گا۔ بھارت نے ریلویز میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے وہاں کی کمپنیوں کو دعوت دی ہے۔ افٹا ملکوں کو بھارت میں ڈبہ بند غذا، شراب، الیکٹرانک مشینری اور دیگر انجینئرنگ مصنوعات کو کم محصول پر برآمد کرنے کے مواقع ملیں گے۔

سوئٹزرلینڈ اِفٹا میں بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ بھارت کو امید ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات کو فروغ حاصل ہو گا۔

یاد رہے کہ 300 سے زیادہ سوئس کمپنیاں اور یو بی ایس بینک بھارت میں کام کر رہے ہیں۔ جب کہ بھارت کی ٹی سی ایس، انفوسس اور ایچ سی ایل جیسی آئی ٹی کمپنیاں سوئٹزرلینڈ میں کاروبار کر رہی ہیں۔

ایک تھنک ٹینک ’سینٹر فار پبلک پالیسی ریسرچ‘ میں کنسلٹنٹ صلاح الدین ایوب کا کہنا ہے کہ کسی بھی یورپی گروپ کے ساتھ بھارت نے پہلی بار آزاد تجارت معاہدہ کیا ہے لہٰذا اس کی کافی اہمیت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ بھارت کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ سوئیزرلینڈ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا دعویٰ مضبوط نہیں ہے۔ البتہ اس سے بھارتی کمپنیوں کو اس خطے کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں میں کاروبار کرنے میں آسانی ضرور ہو گی۔

'بھارت سرمایہ کاری کے لیے ایسے معاہدے کر رہا ہے'

نئی دہلی کی ’جواہر لعل نہرو یوینورسٹی‘ (جے این یو) میں استاد اور معاشی امور کے ماہر پروفیسر پروین جھا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے اس قسم کے معاہدے کرتا رہا ہے۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدے بڑے کاروباری افراد اور تاجروں کو ذہن میں رکھ کر کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو تو فائدہ پہنچتا ہے لیکن چھوٹے کاروباری افراد کو نقصان ہوتا ہے۔

ان کے بقول اس قسم کے معاہدوں کے نتیجے میں حکومت محصولات میں کمی کرتی ہے اس سے بھی چھوٹے صنعت کاروں کو نقصان ہوتا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری تو آ جاتی ہے لیکن چھوٹے کاروباروں اور صنعتوں میں روزگار کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں حکومت کو بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد کی تو فکر ہے لیکن چھوٹے صنعت کاروں کی کوئی فکر نہیں ہے۔

صلاح الدین ایوب کہتے ہیں کہ ابھی تک بھارت اور افٹا ملکوں کے درمیان بہت زیادہ تجارت نہیں ہوتی تھی لیکن اس معاہدے سے تجارت کے بڑھ جانے کی امید ضرور ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت نے ماضی میں جاپان، کوریا اور کچھ دیگر ممالک کے ساتھ جو اس نوعیت کے معاہدے کیے جس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ لہٰذا بہت یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

سوئس حکومت کے بیان کے مطابق بھارت سوئٹزرلینڈ سے 95.3 فی صد صنعتی برآمدات پر بہت زیادہ کسٹم ڈیوٹی اٹھا لے گا۔ البتہ سونے کی درآمد پر یہ چھوٹ نہیں ملے گی۔

ناروے کے وزیرِ تجارت جان کرسٹین نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کو برآمدات کرنے والی ناروے کی کمپنیاں بعض اشیا پر 40 فی صد تک ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ لیکن اب کسی بھی پروڈکٹ پر ٹیکس نہیں دینا ہو گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG