کراچی کی لمبی چوڑی سڑکوں پر ایک مرتبہ پھرغریبوں کی سواری یعنی سا ئیکلوں کا 'دیدار 'عام ہونے لگا ہے ۔ دوعشرے پہلے یہاں کی چھوٹی بڑی شاہراہوں پر سائیکل چلانا عام بات تھی اور موٹر سائیکل کی طرح اس پر دو آدمی یا ایک جوڑاباآسانی سفر کرتا نظر آتا تھا ۔ ایک گلی سے دوسری گلی اور ایک محلے سے دوسرے محلے تک جانے کے لئے سائیکل ہی سب سے بہترین ذریعہ تھی۔
بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے لئے گھر گھر جانے والے قاری حضرات کی تو یہ خاص پہچان تھی۔ صبح اور شام کے اوقات میں دودھ بھی انہی سائیکلوں پر سپلائی ہوتا تھا، خاکروب بھی انہی پر خراماں خراماں چلے آتے تھے۔ گھر کا سودا سلف لانے کے لئے بھی یہی سائیکلیں استعمال ہوتی تھیں۔ بے شمار افراد انہی سائیکلوں پر گلی گلی ڈھیروں قسم کا سامان بیچا کرتے تھے۔
شاید معاشرے میں سائیکل کی اس قدر اہمیت کے پیش نظر ہی بچے سب سے پہلے سائیکل ہی چلانا سیکھتے تھے۔ کھیل کھیل میں، اپنی نہیں تو کرائے پر لے کرہی سہی۔ بچے شام ہوئی نہیں کہ کچے پکے مکانوں کے صحنوں اور گلیوں کے جانے انجانے راستوں پر سائیکل چلانے نکل آتے تھے۔ موجودہ وقت کے ادھیڑ عمر کے جانے کتنے افراد ہوں گے جن کے جسم پر بچپن میں سائیکل سے گرکر چوٹ لگنے کے انمٹ نشانات موجود ہیں۔ ۔۔ مگر پھر اچانک موٹر سا ئیکلوں کا ایسا چلن ہوا کہ لوگوں نے سا ئیکلوں کو تقریباً تقریباً ترک ہی کردیا اور سائیکل دیکھتے دیکھتے غربت کی لکیر سے بھی کہیں نیچے رہنے والے لوگوں تک محدود ہوگئی۔
روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو جانے کس درویش کی دعا لگی ہے کہ اس کے آگے سب ہیچ ہے۔ پیٹرول کے دام تو آسمان سے باتیں کررہے ہیں ۔ یہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی مہربانی ہی ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر غربیوں کی سواری کے دن پھر آرہے ہیں اور رفتہ رفتہ سائیکل پر سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
شہر قائد کی سب سے بڑی اور قدیم سائیکل مارکیٹ لائٹ ہاوٴس نامی علاقے میں ہے۔ یہیں پچھلے35 سالوں سے سائیکلیں فروخت کرنے والی کمپنی جے اے شاہد اینڈ کمپنی کے مالک شاہد نے وی او اے کو گفتگو کے دوران بتایا " ایک عام آدمی کی حیثیت سے میرا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ شہر میں سا ئیکلوں کا استعمال ایک مرتبہ پھر بڑھتا دکھائی دے رہا ہے لیکن چونکہ نئی سا ئیکلوں کی قیمتیں بھی باقی چیزوں کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی ہیں لہذا لوگ نئی سائیکلوں کے مقابلے میں پرانی سائیکلوں کی خریداری کو پہلی ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ لوگوں کی قوت خرید کم ہے۔ مارکیٹ میں برانڈڈ سائیکل کی قیمت آٹھ ہزار ہے۔ ایک عام آدمی اتنی قیمت سن کرہی چپ ہو جاتا ہے ۔ایسی صورت میں یاتو پرانی سائیکل خریدی جاتی ہے یا پھر مقامی سطح پر بننے والی ان برانڈڈ سائیکلوں کو ترجیح دی جارہی ہے ۔۔۔لیکن سائیکل کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ "
شادمان ٹاوٴن میں کرائے کی سائیکلوں کا کام کرنے والے ایک دکاندار عباس احمد نے وی او اے کو بتایا کہ جب سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں علاقے کے تقریباً تمام چوکیدار ، مالی ، پلمبرز، حجام، پھیری والے اور چھوٹی موٹی دکانیں چلانے والے افراد سائیکل پر سفر کو ترجیح دے رہے ہیں۔
عباس احمد نے مزید بتایا کہ بس اور ویگن سے کم از کم ایک اسٹاپ کا کرایہ پندرہ روپے ہے۔ اس حساب سے ایک دن کے کم از کم تیس روپے ہوئے یعنی مہینے میں 900 روپے ۔ اور یہ صرف کام پر آنے جانے کا خرچہ ہے جبکہ اگر کہیں اور جانا آنا پڑے تو یہ رقم بڑھ کر کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے لہذا اب زیادہ تر لوگ سائیکل پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ سائیکل میں نہ پیٹرول کی ضرورت ہے یا انجن آئل اور نہ تیل پانی کی۔ دو پیڈل مارے اور ہوگیا کام۔"
نیوکراچی سیکٹر فائیو ایف کے بزرگ رہائشی مصطفی نے وی او سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے 25 یا 30 سالوں سے سائیکل چلارہے ہیں۔ نیوکراچی سے ملیر جانا ہو یاصدر ہر جگہ ان کی سائیکل ان کے ساتھ رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے ۔ انہیں سائیکل چلانے میں مزہ آتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سائیکل ، تیراکی کے بعد سب سے اچھی ایکسرسائز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سال کی عمر میں بھی وہ 'فٹ 'ہیں۔ انہیں بلڈ پریشر ، کولیسٹرول، ذیابیطیس اور قلب کی کوئی بیماری نہیں۔
وہ ازراہ تففن کہتے ہیں " یہ تو امیروں کی بیماریاں ہیں ، میں غریب عام آدمی ہوں ۔۔ روز سائیکل چلاتا ہوں، اس سے روگ بھاگتے ہیں ۔میری نظر میں سائیکل غریب کی سواری ہے مگر اس کے فائدے امیروں والے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں: ۔۔ بدامنی کے اس نازک دور میں انہیں نا سائیکل چھننے کا خوف ہے ، نہ ایندھن کے دام بڑھنے کا ڈر۔ پارکنگ کا کوئی مسئلہ ہے نا چالان کا اندیشہ۔ ایسے مزے تو دس لاکھ کی گاڑی میں بھی نہیں."
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سائیکلوں کا استعمال ایک مرتبہ پھر تیزی پکڑ رہا ہے۔ اس سائیکل کو کہاں کہاں اور کون کون سی شاہراہوں پر دوڑتے دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے کیا کام لئے جارہے ہیں اس کا اندازہ آپ سلائیڈ شو کو دیکھ کر بھی کرسکتے ہیں۔