امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی جانب سے آرمینیائی لوگوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کو باقاعدہ نسل کشی قرار دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
امریکی عہدیداروں نے اس حساس موضوع پر اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ اعلان ہفتہ 24 اپریل کے دن متوقع ہے، جب اسے متاثرین کی یاد میں سالانہ دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران، صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ آرمینیائی نسل کشی سے متعلق قرار داد کی حمایت کریں گے اور عالمی انسانی حقوق کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔
صدر بائیڈن کے وعدے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر، وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بدھ کے روز کہا تھا کہ وہ توقع کر رہی ہیں کہ ہفتے کے روز ان کے پاس بتانے کے لیے مزید کچھ ہو گا۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک سو ارکان پر مشتمل ڈیمو کریٹک اور ریپبلکن جماعتوں کے گروپ نے بدھ کے روز ایک خط میں صدر بائیڈن پر زور دیا تھا کہ وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران آرمینیائی افراد کی ہلاکت کو باقاعدہ نسل کشی قرار دینے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں۔
قانون سازوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ آرمینیائی لوگوں کی نسل کشی کی تاریخی حقیقت پر امریکی حکومت کی خاموشی طویل عرصے سے جاری ہے، جسے اب ختم ہونا چاہئیے۔ انہوں نے صدر پر زور دیا کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہوئے، ان کے الفاظ میں، سچ کا اظہار کریں۔
واضح رہے کہ ترکی کے وزیرِ خارجہ میولوت چاووشوغلو نے اس ہفتے کہا تھا کہ صدر بائیڈن کی جانب سے ہلاکتوں کو نسل کشی تسلیم کرنے سے نیٹو اتحادیوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔
مورخین کا کہنا ہے کہ جدید ترکی کے قائم ہونے سے قبل پہلی جنگ عظیم کے دوران اس خطے میں 1915 سے لے کر 1923 تک لگ بھگ 15 لاکھ آرمینیائی افراد کو سلطنت عثمانیہ میں شامل ترکوں نے منظم انداز میں ہلاک کیا گیا تھا۔
آرمینیائی آبادی کا الزام ہے کہ انہیں بھوک پیاس، جبری مشقت، ملک بدری اور طویل پیدل سفر پر مجبور کرنے کے علاوہ کھلم کھلا قتل عام کے ذریعے نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔
ترکی اس بات سے انکار کرتا ہے کہ آرمینیائی لوگوں کی ایک منصوبے کے تحت نسل کشی یا انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ آرمینیائی متاثرین، جنگ کے دوران مارے گئے یا پھر انہیں روسیوں نے ہلاک کیا تھا۔ ترکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے آرمینیائی افراد کی تعداد پندرہ لاکھ ہلاکتوں سے کہیں کم ہے۔