صدر بائیڈن نے، جن پر امریکہ کے شہری حقوق کے رہنماؤں کا دباؤ ہے، منگل کے روز اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ووٹ کے حق کے بارے میں قانون سازی کرنا قوم کے لیے بہت ضروری ہے، جو کانگریس میں ری پیلیکنز کی مخالفت کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔
ری پبلیکن اکثریت والی کئی ریاستں اس بنیاد پر اپنے ہاں انتخابی قوانین سخت کرنے کی منظوری دے چکی ہیں کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنی جیت کا دعویٰ اس پس منظر میں کیا تھا کہ ان میں بڑے پیمانے پر جعل سازی کی گئی تھی۔
منگل کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے ری پبلکن قیادت پر نکتہ چینی کی کہ وہ ریاستوں پر ووٹنگ کے ضابطے سخت کرنے پر زور دے رہی ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو آزادی پر ایک حملہ قرار دیا۔
ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ وہ ووٹنگ کے ضابطوں کو اس لیے سخت کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی الیکشن میں فراڈ نہ ہو اور امریکیوں کو یہ اعتماد ہو کہ ووٹوں کی گنتی منصفانہ طریقے سے ہوئی ہے۔ لیکن بائیڈن نے چھ ماہ کی اپنی صدارت میں غالباً اپنی انتہائی جذباتی تقریر میں کہا کہ 17 ریاستوں میں پہلے ہی اختیار کئے جانے والے 28 قوانین امریکیوں کے لئے ووٹ ڈالنا مشکل تر بنا تے ہیں۔
فلاڈلفیا میں نیشنل کونسٹی ٹیوشن سنٹر میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے سابق صدر ٹرمپ کا نام لئے بغیر ان کے ان مسلسل دعوؤں کو جھوٹ قرار دیا کہ گزشتہ نومبر کے انتخابات میں ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی میں جعلسازی ہوئی تھی۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے'۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں اگر آپ الیکشن میں ہار جاتے ہیں تو نتائج کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ آپ آئِین کی پیروی کرتے ہیں۔ آپ ایک بار پھر کوشش کرتے ہیں۔ آپ حقائق کو جعلسازی نہ کہیں۔ امریکیوں کے تجربات کو محض اس وجہ سے رد نہ کریں کہ آپ ان سے ناخوش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ شفاف اور آزادانہ انتخابات کے حق کو دبانے کی ایک کوشش اور جمہوریت اور آزادی پر ایک حملہ ہے۔
انہوں نے سینیٹ پر زور دیا کہ وہ ووٹنگ کے حقوق پر ایوان کی طرف سے منظور شدہ بل کی منظوری دے، جو کانگریس اور صدر کے انتخابی ضابطوں کو نیشنلائز کر دیں گے اور ان نئی پابندیوں کو منسوخ کر دیں گے جن کے بارے میں بائیڈن اور ڈیموکریٹک قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر اقلیتوں کی ووٹنگ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں جو بیشتر اوقات ڈیمو کریٹس کو ووٹ دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ووٹ کے حق سے متعلق قانون سازی کی کوشش سے بائیڈن کو کانگریس میں سخت مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے جہاں ان کے ڈیموکریٹ ساتھیوں کو سینیٹ میں ری پبلیکنز کی جانب سے دشوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ارکان کی تعداد مساوی یعنی 50/50 ہے۔ اس صورت حال میں نائب صدر کاملا ہیرس کا ووٹ فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔
اس کے باوجود، بائیڈن اس موضوع پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، چاہے انہیں قانون سازی میں ناکامی کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ وہ ڈیموکریٹس کے حامی ووٹرز کی حمایت پر بھروسا کیے ہوئے ہیں جب کہ ان کی پارٹی 2022 کے وسط مدتی انتخابات میں کانگریس پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
فلاڈلفیا میں اپنی تقریر کے دوران صدر بائیڈن نے کہا کہ انتخابی قوانین سخت بنانے کی ری پبلیکنز ریاستوں کی کوششیں ووٹ کے حق کی اہمیت کو اسی طرح گھٹا دیں گی جیسا کہ ماضی کے قوانین میں سیاہ فاموں اور عورتوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی کوشیں کی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ووٹ کے عمل کو مشکل بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ اس طرح لوگ بالکل ووٹ نہیں دیں گے۔ یہ سب یہی کچھ ہے۔
نیویارک یونیورسٹی میں قائم برینن سینٹر فار جسٹس کے لا سکول کے مطابق اس سال کم ازکم 17 ریاستوں نے قانون سازی سے ووٹ کے حق کو مشکل بنا دیا ہے، جب کہ کئی اور ریاستیں اس بارے میں غور کر رہی ہیں۔
بائیڈن کی پارٹی اور شہری حقوق کے گروپس نے ووٹنگ سے متعلق پابندیوں کی مخالفت کی ہے، جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد سیاہ فاموں، ہسپانوی اور نوجوان ووٹروں کو ہدف بنانا ہے، جنہوں نے ڈیموکریٹس کی جیت میں مدد کی ہے۔
بہت سے ری پبلیکنز نے یہ کہتے ہوئے ان پابندیوں کی حمایت کی ہے کہ اس کا مقصد، بقول ان کے، ووٹنگ میں جعل سازی کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے متعلق انتخابی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا امریکہ میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔
سینیٹ میں ری پبلیکن ارکان نے ووٹ کے حق سے متعلق ڈیموکریٹس کے حمایت یافتہ اس بل کا راستہ روک دیا ہے، جس کا مقصد الیکشن کے دن سے قبل ووٹ ڈالنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی مہم ووٹنگ کو زیادہ شفاف بنانے کے لیے ہے۔ ری پبلیکنز نے کہا ہے کہ ڈیموکریٹس کے اس اقدام سے ریاستوں کے اپنے انتخابی قوانین خود بنانے کے اختیار کی خلاف ورزی ہو گی۔