امریکہ کے کلائمیٹ شعبے کے خصوصی ایلچی جان کیری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2050 میں دنیا کی آبادی کے تقریباً دس ارب تک پہنچنے کا امکان ہے اور اس تناظر میں یہ (اپنی بقا کا ) دفاع کرنے کی متحمل نہیں ہو پائے گی ۔
عالمی آبادی نومبر سے لے کر اب تک باضابطہ طور پر آٹھ ارب سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ 1950 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔اس صورتحا ل کے نتیجے میں خوراک اور توانائی کی ضروریات اورفراہمی پر اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس صدی کے وسط میں دنیا کی کل آبادی 9.7 ارب تک پہنچ جائے گی۔جان کیری نے خبر رساں ادارے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ پائیدار رہنے کی متحمل ہو پائے گی ۔ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم اس کی بقا اور پائیداری کے مسئلے سے کس انداز میں نمٹیں جبکہ ہم کرہ ارض پر لوگوں کی اس بڑی تعداد کی دیکھ بھال کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔
گلوبل وارمنگ یا عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ اس مسئلے میں شدت پیدا کر رہا ہے۔ 2015 میں تاریخی پیرس معاہدے میں گلوبل وارمنگ کو دو ڈگری سیلسیس یا ممکنہ طور پر 1.5 سلسئیس کی سطح سے نیچے رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
آٹھ ارب افراد کے لیے درکار خوراک پیدا کرنے کا عمل گرین ہاؤس گیسوں کے کل اخراج کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔پھر انسانی خوراک کے استعمال کے لیے مویشی پالنا، خوراک کو ضائع کرنا اور جنگلات کی کٹائی جیسے عوامل بھی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں خشک سالی، سیلاب اور انتہائی موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
امریکی نمائندے جان کیری بتاتے ہیں کہ وہ بہت سے افریقی ممالک میں گئے ہیں جہاں کے مکینوں کو اپنی شرح پیدائش میں اضافے پر بہت فخر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مستقبل تو دور کی بات ہے یہ آج کی زندگی کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔
جان کیری نے مزید کہا کہ ’’میں آبادی کو کم کرنے کی سفارش نہیں کر رہا ہوں۔ہمارے اس سیارے پر زندگی موجود ہے جس کا ہمیں احترام کرنا ہے لیکن ہم اس وقت جو روش اپنائے ہوئے ہیں اس سے کہیں بہتر انداز اپنا سکتے ہیں ۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ ان خطوں میں سے ایک ہے جوموسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ جہاں تباہ کن خشک سالی کا سامنا رہتا ہے یا پھر سیلاب آتے ہیں حالانکہ ان خطوں کے مکین مغربی ممالک کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ پر زیادہ اثرات مرتب نہیں کرتے ۔
روز مرہ رہن سہن اور عادات میں تبدیلی
ہوائی سفر سے گریز، گوشت کا کم استعمال اور گھروں کے اندرونی درجہ حرارت کو بہتر بنانا ایسی تبدیلیاں ہیں جو ماحول کو بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
ناروے کی ماحولیاتی ایجنسی کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک 2024 سے 2030 کے درمیان اس صورت میں کاربن کے 4.5 ملین ٹن اخراج کو کم کر سکتا ہے اگر اس کی پچپن لاکھ پر مشتمل آبادی صحت کے حکام کی جانب سے جاری کی جانے والی غذائی رہنمائی پر عمل کرے۔اس رہنمائی کے تحت اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ زیادہ گوشت کھانے والے ہر ہفتے ریڈ میٹ کی مقدار کو پانچ سو گرام سے کم کر دیں ۔لیکن جان کیری نے لوگوں کو ہیمبرگرز سے پرہیز کرنے کی اپیل نہیں کی ۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار لوگوں پر ہے کہ وہ ماحولیاتی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا انتخاب کرتے ہیں ۔ کلائمیٹ کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے کا کہنا ہے کہ ’’وہ یہ تجویز ضرور دیں گے کہ ہم اپنے ان طریقوں کو تبدیل کریں جن کا تعلق مویشیوں کو کھانا کھلانے ، ان کی خوراک کا انتخاب کرنے اور کاشتکاری سے ہے۔ ‘‘ جان کیری نےکاشتکاری میں ایسی نئی ٹیکنالوجیز کا حوالہ دیا جو ماحول پر منفی اثرات کو کم کرتی ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ میں سابق وزیر خارجہ کے فرائض انجام دینے والے جان کیری نے دنیا کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے روزمرہ زندگی میں تجویز کردہ انتہائی تبدیلیوں کے تصور کو مسترد کر دیا۔وہ کہتے ہیں کہ ’’ میرے خیال میں آج ہمیں جو درکار ہے اس کے لئے آپ کواپنے مخصوص طرز زندگی کی قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
جان کیری کا کہنا ہے کہ ’’ آپ اپنے طرز زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں ،آپ بہتر کھانا کھا سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوراک مہیا کر سکتے ہیں اگر ہم روز مرہ زندگی میں کھانا ضائع کرنا چھوڑ دیں ۔‘‘
(اس خبر کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)