امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے رہنما غزہ کے تنازع کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پر عزم ہیں۔
اینٹنی بلنکن سات اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے بعد خطے کا یہ چوتھا دورہ کر رہے ہیں۔
عرب رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا کہ فلسطینیوں کے لیے آگے بڑھنے کا ایک سیاسی راستہ طے کرنے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب کے دورے کے دوران ہوائی اڈے پر اینٹنی بلنکن نے صحافیوں کو بتایا کہ مغربی کنارے اور غزہ کو فلسطینیوں کی زیرِ قیادت حکومت کے تحت متحد ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کا مستقبل انضمام کا ہونا چاہیے، نہ کہ تقسیم اور تنازع ہونا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام دیکھنا ہوگا۔
سعودی عرب کی طرف سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بلنکن کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک بیان میں غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کی اہمیت اور امن و استحکام کی بحالی کے لیے حالات پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس کوشش کا مقصد فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق کے حصول اور ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول کو یقینی بنانا ہے۔
اسرائیل جانے سے قبل بلنکن نے پیر کو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور سعودی عرب کے سینئر حکام سے ملاقاتیں کیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ اسرائیلی حکام پر زور دیں گے کہ وہ غزہ کے لیے مزید امداد اور شہریوں کے لیے زیادہ تحفظ فراہم کریں۔ وہ باقی یرغمالیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کی کوششوں اور اس بات کو یقینی بنانے کے طریقۂ کار پر بھی بات کرنے کا ارادہ رکھتے کہ تنازع خطے کے دیگر حصوں تک نہ پھیلے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی قیادت میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بلنکن نے کہا کہ اس مقصد کے حصول میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ خطے میں بھی واضح دلچسپی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضرورت ہوگی کہ غزہ میں تنازع ختم ہو جائے گا اور یہ واضح طور پر اس بات کا بھی تقاضا ہو گا کہ فلسطینی ریاست کے لیے ایک عملی راستہ موجود ہو۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان تنازع کے دوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سفارتی بات چیت روک دی ہے۔
بلنکن ایسے وقت میں خطے کا دورہ کر رہے ہیں جب اسرائیل اور حماس کی جنگ غزہ سے باہر پھیلنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
پیر کے روز جنوبی لبنان میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک اہم کمانڈر کی ہلاکت ہوئی جسے مشرقِ وسطیٰ میں ممکنہ طور پر بڑھتے ہوئے تنازعے کی تازہ ترین علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں بلنکن نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ واضح طور پر اسرائیل، لبنان یا حزب اللہ کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ تنازع کو غزہ سے باہر بڑھتا ہوا دیکھیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ اسرائیلی حکام نے امریکہ سے واضح طور ہر کہا ہے کہ وہ آگے بڑھنے کا سفارتی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
حزب اللہ نے ہلاک ہونے والے کمانڈر کی شناخت وسام التویل کے نام سے کی ہے۔
گزشتہ ہفتے حماس کے سینئر عہدیدار صالح العاروری بیروت میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
یاد رہے کہ حماس اور حزب اللہ دونوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
ایران کے شام، عراق اور یمن میں عسکریت پسند اتحادی بھی اسرائیل کے خلاف طویل فاصلے سے حملے کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں کے جنوبی اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد سے اسرائیل نے حماس کا صفایا کرنے کے لیے اپنی فوجی مہم شروع کی تھی جس میں غزہ پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے سات اکتوبر کو حملے میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجوؤں نے 240 افراد کا یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے لگ بھگ 100 کو عارضی جنگ بندی کے دوران رہائی مل گئی تھی۔
دوسری جانب حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں تقریباً 23 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔