بالی ووڈ فلموں میں اب شاید فلم بین کبھی ’پاوٴں چھو لینے دو پھولوں کو عنایت ہوگی‘ جیسے گانے نہ سن سکیں جس میں ہیروئن ہیرو کو دیکھ کر شرم سےگھبراکربھاگ کھڑی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ اب اس جیسے زمانے رہے ہیں نہ ان جیسی ہیروئنز کو اس انداز میں پسندکرنے والے۔
آج کی ہیروئن بالی ووڈ فلموں میں وہ سب کچھ کرتی دکھائی دیتی ہے جوجنوبی ایشیائی معاشروں میں کبھی معیوب سمجھا جاتا تھا مثلاً شراب نوشی، سگریٹ کے مرغولے چھوڑنااور اس سے بھی دوقدم آگے بڑھیں تو فحش گالیاں بکنا۔ نئی فلم ”راک اسٹار “کو دیکھ لیجئے، اس کی ہیروئن شراب نوشی کی خواہش کا برملا اظہار کرتی نظر آئی ہے، ’دی ڈرٹی پکچر ‘میں وویا بالن نے بولڈ سین فلمبند کراکے حدکردی ہے۔
ایک اور فلم’ پلیئرز‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ہیروئن سونم کپور ہیں۔ انہوں نے بھی ودیا بالن کی طرح شرم کی ’لمٹ کراس‘کی ہے۔ کتریناکیف نے فلم’میرے برادر کی دلہن ‘میں شراب نوشی کی ہے توفلم ’نوون کلڈ جیسیکا‘ میں رانی مکھرجی کو دل بھر کر’ گالیاں‘ بکتے دکھایا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟
کراچی کے ایٹریم سنیما سے فلم دیکھ کر باہر نکلتی ایک خاتون شہلا نے وی او اے کے نمائندے سے مذکورہ موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ”آج کی ہیروئن زیادہ ’باہمت ‘اور ’شرارتی‘ ہوگئی ہے۔ اب کوئی ہیروئن ”اشاروں ، اشاروں میں دل لینے والے ۔۔۔بتایہ ہنر تو نے سیکھا کہاں سے۔۔“ اور ”چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا “جیسے پرانے گانے پکچرائز کرانا کبھی پسند نہیں کرے گی ۔ اب تو ”سنجنا ہے مجھے ، سنجنا کے لئے “جیسے جدید ری میکس گانے کو معاشرے میں ویلکم کیاجارہا ہے۔“
وہ مزید کہتی ہیں ”اس فرق کی واضح وجہ معاشرے میں تبدیلی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ فلمیں معاشرے کا آئینہ ہوا کرتی ہیں ۔ آج اگر ہیروئن” شرماتی“ اور” لجاتی “نظر نہیں آتی تو معاشرے میں بھی ایسی لڑکیاں اب کہاں رہیں۔ آپ اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور انیسویں صدی کی ہیروئنوں کو پردے پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔یہ بھلا کیوں کر ممکن ہے“
کراچی کے ہی ایک اور فلم بین ناظم الدین کا کہنا ہے ”خواتین کا گھریلو انداز میں زندگی گزارنا، غربت ہو تو محلے کے کپڑے سینا، خاموشی سے ساس اور سسرال والوں یا شوہر کے ظلم بردداشت کرنا ایسے دور کی باتیں ہیں جب فلمیں بلیک اینڈ وائٹ ہوکرتی تھیں ۔ “
وہ مزید کہتے ہیں ”فلموں میں دکھائی جانے والی خواتین ایسی ہی ہوتی تھیں لیکن وقت بدلنے کے ساتھ معاشرے میں نئی سوچ پروان چڑھی ہے۔ خواتین کا فلمی کردار بھی اب بدل گیا ہے۔”دہلی بیلی“،” عشقیہ“،” شیطان“،” تنو ویڈز منو“ ،” جسم“، ”سات خون معاف“، ”دم مارو دم“ اور” گرل فرینڈ“ جیسی کچھ فلمیں ہیں جن میں خواتین کے کردار یکد دم مختلف ہیں اور یہ آج کے معاشرے سے ہی لئے گئے ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا’ آج کی عورت زیادہ تنخواہ والی نوکری پسند کرتی ہے ،اسے کم بچے پالنے کا شوق ورثے میں ملا ہے۔وہ اب تنہا زندگی گزارنے کو بھی مشکل نہیں سمجھتی۔ اس لئے سنیما کے پردے پر بھی یہی کچھ دکھایا جارہا ہے“۔
’آپ اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور انیسویں صدی کی ہیروئنوں کو پردے پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔یہ بھلا کیوں کر ممکن ہے‘