ستر کی دہائی میں بالی ووڈ کو یکے بعد دیگرے ایسی کئی نوجوان فنکارائیں میسر آئیں جنہوں نے اپنے گلیمرس چہرے سے فلمی دنیا کو نئی سمتوں سے روشناس کرایا مثلاً ہیما مالنی، شرمیلا ٹیگور، ڈمپل کپاڈیا، ممتاز، زینت امان ، پروئن بابی وغیرہ۔
ان اداکاراؤں نےبالی ووڈ کوجس مقام پر پہنچایا وہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ ان اداکاراوٴں نے پردہ سیمیں پر اپنی معصوم اداوٴں، فنِ مہارت اور خوبصورتی سے انگنت نا قابل فراموش کردار نبھائے۔ ہیما مالنی بھی انہی اداکاروں میں سے ایک ہیں ۔ ہیما نے 70ء اور 80 ء کی دہائیوں کے ہندی سنیما کو بام عروج پر پہنچایا۔
ہیما آج ساٹھ برس سے زیادہ کی ہیں لیکن اکثر لوگوں کو وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور باوقار لگتی ہیں۔ ہیما بالی ووڈ کی پہلی اور شاید واحد ڈریم گرل ہیں۔ انہیں اپنی اداکارانہ صلاحیتوں اور خوب صورتی پر "پدما شری ایوارڈ" بھی مل چکا ہے۔
تعلیم یافتہ ہیما مالنی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے جدوجہد کے دور سے انتہائی عروج کے دور تک کبھی جسم کی نمائش کا سہارا نہیں لیا۔ آج بھی یہ بات کی جا سکتی ہے کہ ان کی کوئی ایک بھی تصویر یا ویڈیو معیار سے گری ہوئی پیش نہیں کی جاسکتی۔ ہیمااپنے پروقار ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ اپنی بہترین اداکاری کے بل بوتے پر آگے بڑھی ہیں۔
ہیما مالنی وجنتی مالا کے بعددوسری تامل ہیروئن تھیں جنھوں نے بالی ووڈ میں خوب ہلچل مچائی۔ ہیما مالنی اکتوبر 1948ء میں آر چکرورتی کے گھر تامل خاندان" آئینگر" میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ فلم میں کام کیا، لیکن وہ فلم مکمل نہ ہوسکی ۔ فلم کے ڈائریکٹر سری دھر ہیما مالنی کے دبلے پتلے جسم کو کسی کردار میں نبھانے کا کوئی فیصلہ نہ کرسکے تھے ۔ آخر میں آکر اسی سبب انہوں نے فلم درمیان میں ہی روک دی۔ جبکہ، اس واقعے کے صرف چار سال بعد ہیما نے فلم ’سپنوں کا سوداگر‘ میں لیجنڈری ہیرو راج کپور کے مقابل کام کر کے اپنے فن اور اپنے حسن کا وہ لوہا منوایا کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔
یہ فلموں میں ہیما مالنی کا آغاز تھا جبکہ اگلی دو دہائیوں میں انہوں نے بڑے بڑے کردار ادا کر کے سب سے زیادہ پسند کی جانے والی اداکارہ کا اعزاز حاصل کرلیا۔ ہیما میں مختلف کرداروں کو نبھانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ یہ خوبی کم اداکاروں میں ہوتی ہے۔
ہیما ان کرداروں کو بھی آسانی سے ادا کرنے کی حامی بھر لیا کرتی تھیں جن سے 1960ء کی دہائی کی ہیروئینں انکار کردیا کرتی تھیں، مثلاً 1971ء میں بننے والی فلم "انداز" میں انہوں نے ایک جوان سال بیوہ؛ 1971 ء میں فلم "لال پتھر" میں منفی کردار ادا کیا تھا حالانکہ اس سے پہلے اس دور کی ہیروئنیں ایسے کردار ادا کرنے سے منع کردیا کردیا کرتی تھیں۔
1972ء میں انھوں نے فلم ”سیتا اور گیتا“ میں سنجیو کمار اور دھرمیندر کے مقابل ڈبل رول ادا کر کے سب کو حیران کردیا۔ اس فلم میں اپنی خوبصورت اداکاری پرانھیں پہلا فلم فیئر بیسٹ ایکٹریس ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد سے تووہ اپنے پورے کیریئر میں نمبر ون ہی رہیں۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب بھارت کی نہایت بڑی اوربلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے نہ صرف اداکاروں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا بلکہ بھارتی سنیما کی بھی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ اس فلم میں ہیما مالنی نے ایک تانگے والی ’بسنتی‘ کا کردار اس خوبصورتی سے نبھایا کہ اس کے بعد ان کے پاس ایک کے بعد ایک 28 فلموں کی لائن لگ گئی۔ ان فلموں میں ”ڈریم گرل، چرس، نیا زمانہ، راجا جانی، دی برننگ ٹرین“کے علاوہ بہت سی خوبصورت اور یادگار فلمیں شامل ہیں۔