فلمیں شروع ہی سے فیشن کے رجحان بدلنے کا سبب رہی ہیں۔ایک دور میں امیتابھ کے لمبے لمبے بالوں ، نیٹو سنگھ اور رشی کپور کی بال بیٹم ،اور زمین میں رگڑ کھاتے چوڑے پائنچوں والی پینٹس اور دھرمیندر و جتندر کی بالش بالش بھر اونچی ایڑھی والے جوٹوں کی ’فخریہ نقل‘ کی جاتی تھی۔
فلموں کی تاریخ اور حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کے نزدیک فلموں میں دکھایا جانے والا فیشن اب بھی لوگوں میں اپنانے اورمعاشرتی رجحان بدلنے کا سبب ہے۔ فلموں میں نئے نئے تجربات خوشگوار تبدیلی اور یکسانیت کو ختم کرنے کے لئے اپنائے جاتے ہیں اور معاشرہ خصوصاً نوجوان نسل اس سے متاثر ہوکر اسے اپناتی ہے اور یوں یہ رجحان شروع سے برقرار رہا ہے۔
خواتین و لڑکیوں کی بات تو چھوڑیئے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ مردوں کے ملبوسات میں بھی انقلابی تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ آج کی فلموں میں بھی مردانہ لباس کے رنگوں سے لے کر تراش خراش تک سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ماہرین کے مطابق اس کا سہرا جاتا ہے بالی وڈ کے انتہائی کامیاب ہدایت کار کرن جوہر کے سر۔۔ جنھوں نے اپنی فلموں کے ہیروز کے ملبوسات کو بالکل نیا اور جدید رخ دے دیا ہے ۔
اپنی فلم ’دوستانہ‘ میں کرن نے ملبوسات کے حوالے سے نت نئے تجربے کئے اور ابھیشک بچن اور جان ابراہم کو شوخ رنگوں اور ڈائی اینڈ ڈائے والے کپڑے پہنا ڈالے۔ اس تبدیلی کو زبردست پذیرائی ملی۔ ان کی دیکھا دیکھی اب دوسرے ڈائریکٹرز بھی کرن جوہر کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔
نئی فلم ”کیا سپرکول ہیں “کا گانا ”دل گارڈن گارڈن ہوگیا“میں بھی رتش دیش مکھ ، تشار کپور اور دیگر ایکٹراور ایکٹریسزکو جس قسم کے ملبوسات پہنائے گئے ہیں انہیں دیکھ کر واضح ہورہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر فیشن بدلنے کو ہے اور اس بار تیز اور انتہائی تیز و شوخ رنگوں کے کپڑے ’ان‘ ہورہے ہیں۔
پرانے زمانے کی فلموں میں دیو آنند ایسے ہیروتھے جو بلاشبہ ’ٹرینڈ سیٹر ‘تھے۔اس زمانے کے رواج سے ہٹ کر دیو آنند نے اپنی مرضی سے اپنا ایک نیا اسٹائل تخلیق کیا جس میں رنگوں کا چناوٴ بھی بالکل الگ تھا اور یہی ان کی پہچان بھی بنا۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’گینگز آف واسے پور‘ بھی ایسی ہی فلموں میں شامل ہے جس میں فیشن کے حوالے سے کچھ نیا اور پہلے سے مختلف دیکھنے کو ملا ۔ وہ تھا روایتی مفلر ۔۔ مطلب راویتی چیز جدت کے ساتھ۔ یہ ایک بہت مثبت تبدیلی کہی جا سکتی ہے کہ روز مرہ کے عام پہناوے بھی اب فیشن کی دنیا میں نظر اندازکرنے کی بجائے انہیں جدید دور کے تقاضوں میں ڈھال کر اپنا یا جا رہاہے۔
جب عرب ممالک میں گردن کے گرد لپیٹے جانے والے ’فی آفا‘ کو فخریہ پہنا جاسکتا ہے تو دیسی مفلراور ملبوسات کی پروموشن کیوں نہیں کی جاسکتی؟
صدیوں سے شہر ہو یا دیہات مفلر امیر ، غریب سبھی کے لباس کا کسی نہ کسی انداز میں حصہ رہا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ شہروں میں رنگوں کی مناسبت سے مفلر بھی استعمال بھی لباس کا لازمی جز بن گیا۔ اس کی بہترین مثال فلم ’بنٹی اور ببلی ‘ ہے جس میں امیتابھ نے لیدر جیکٹ کے ساتھ مفلر پہن کر عوام کے دل جیت لئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1