پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں بدھ کی صبح ایک بس میں ہونے والے دھماکے سے 15 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔
لگ بھگ 30 زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے، جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
پولیس حکام کے مطابق بس مردان سے سرکاری ملازمین کو لے کر آ رہی تھی اور جیسے ہی پشاور کے تھانہ غربی کے سامنے سنہری مسجد کے علاقے میں پہنچی تو اس میں زور دار دھماکا ہوا۔
پولیس اور امدادی کارکن فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچے اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔
دھماکے سے بس کو خاصا نقصان پہنچا اور اسی باعث زخمیوں کو بس سے نکالنے میں امدادی کارکنوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
بتایا جاتا ہے کہ بس پر سول سیکرٹریٹ کے ملازمین پشاور آتے ہیں اور دھماکے کے وقت اس پر لگ بھگ پچاس افراد سوار تھے۔
صوبائی مشیر اطلاعات مشتاق غنی نے صحافیوں کو بتایا کہ بس کے اندر ہی کوئی دھماکا خیز مواد نصب تھا جس کے پھٹنے سے یہ واقعہ پیش آیا۔
"یہ بس درگئی سے آئی ہے اور راستے میں مختلف جگہوں سے ملازمین کو بس میں بٹھاتی رہی۔۔۔ یہ سرکاری بس نہیں تھی یہ ایک پرائیویٹ بس تھی جس کا انتظام مقامی طور پر کیا گیا تھا۔ حکومت نے ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ جس اڈے سے بس نکلے گی (اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے) تو وہ اڈہ ذمہ دار ہو گا تو اس کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘‘
سکیورٹی فورسز نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا اور تفتیش کاروں نے یہاں سے شواہد جمع کرنا شروع کیے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم ’لشکر اسلام‘ نے ذرائع ابلاغ کے نام بھیجے گئے بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
قبائلی علاقوں سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں پرتشدد واقعات روز کا معمول رہے ہیں۔ ماضی میں بھی پشاور کے قریب سرکاری ملازمین کی بسوں کو شدت پسند نشانہ بناتے رہے ہیں۔
لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے باعث مہلک واقعات میں ماضی کی نسبت کمی دیکھی گئی ہے۔
اب بھی تشدد کے اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جنہیں حکام عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔
رواں ماہ ہی چارسدہ کے علاقے شبقدر میں ایک ذیلی عدالت میں ہونے والے خودکش بم حملے میں کم از کم 17 افرد ہلاک ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ پشاور میں بس کو نشانہ ایسے وقت بنایا گیا جب ایک روز قبل ہی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے جرائم میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 13 مجرموں کی سزاؤں کی توثیق کی تھی۔