پاکستان کا سب سے بڑا کاسموپولیٹن شہر ۔۔کراچی ۔۔نامساعد حالات کے باوجود ترقی کی نئی منازل طے کر رہا ہے ۔دن دگنی، رات چوگنی رفتار سے بڑھتی ہوئی زمین و جائیداد کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو شاید پورے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مہنگے داموں والا خطہ زمین بھی آپ کو یہیں کہیں مل جائے۔
ان دنوں شہر کی تعمیراتی صنعت میں دبئی کی طرز کا ’بوم‘ آیا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کی تین روز تک جاری رہنے والی نمائش کی کامیابی سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ’ایکسپو سینٹر‘ میں ہونے والی اس تقریب کی بہت سی خصوصیات تھیں، جیسے نمائش میں صرف مقامی بلڈرز اور ڈیولپرز نے ہی شرکت نہیں بلکہ 24 غیر کمپنیوں نے بھی یہاں اسٹالز لگائے تھے۔
’آباد‘ کے چیئرمین محسن شیخانی نے وی او اے کو بتایا ’نمائش میں متحدہ عرب امارات کی تین کمپنیوں کے ساتھ 200 ملین ڈالر کے معاہدے ہوئے، جبکہ مزید کمپنیوں اور سرمایہ کاروں سے بات چیت کے بعد آئندہ چند ماہ میں800 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی بھی توقع ہے۔‘
محسن شیخانی کے مطابق، ’نمائش کے دوران 150 ارب روپے سے زائد کے رہائشی منصوبے نمائش میں متعارف کرائے گئے ہیں، جبکہ 350 ارب روپے مالیت کے مزید منصوبوں کا اعلان آئندہ چند ماہ میں ہوگا۔‘
یہ بڑی بڑی رقمیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ اگر شہر میں امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہوجائے تو کراچی کی زمینیں سونا اگلیں گی۔
اس وقت شہر کے کسی بھی کونے میں چلے جائیے ہر جگہ نئے نئے تعمیراتی منصوبے شروع ہوتے نظر آئیں گے۔ گلشن اقبال، گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، ملیر، ایئرپورٹ کے اطرافی علاقے، نارتھ کراچی، نیو کراچی اور دیگر بہت سے علاقوں میں فلیٹس، دکانیں، ون یونٹ بنگلے اور بڑے بڑے مکانات زیرتعمیر ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں کئے گئے سروے کے بعد جو نتائج سامنے آئے، ان کے مطابق کراچی میں زمینوں کی قیمت سنہ 2000 سے اب تک مسلسل بڑھتی چلی آرہی ہیں۔ سنہ 2000 میں نارتھ کراچی میں واقع سرینا ٹاورز میں چار کمروں کے ایک فلیٹ کی قیمت اوسطاً آٹھ لاکھ روپے تھے جو اطرافی علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً مہنگے تھے۔
ریئل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ ایک ماہر ایجنٹ ناصر نے وی او اے کو بتایا ’ناگن چورنگی پر واقع رضیہ سینٹر میں سنہ 1995 میں چار کمروں کے نارمل فلیٹ کی قیمت چار لاکھ تھی، جبکہ یہیں ایک مشہور اپارٹمنٹ ’محبوب ہائٹس‘ بننا شروع ہوا تو فلیٹ کی قیمت یکدم 8سے 12لاکھ تک پہنچ گئی۔‘
سرینا ٹاور کے ایک دیرینہ رہائشی شجاع اللہ حسینی کے مطابق، ’2006ء میں زمینوں اور فلیٹس کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر بڑھ گئیں۔ بلاک جے نارتھ ناظم آباد کے ممتاز اسپتال کے قریب جب میں ایک نوتعمیر فلیٹ کی قیمت پوچھی تو سن کر میں نے اپنی انگلی گویا دانتوں تلے دبا لی۔ مجھے پہلی بار علم ہوا کہ ایک فلیٹ 40لاکھ روپے تک کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ فلیٹ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا کی شہور شاپ ’ناصر محمود سوئٹس‘ والوں کی ملکیت تھی۔ میں نے یہ فلیٹ محض اس لئے نہیں لیا کہ اتنے پیسوں میں اس وقت 120گز کا مکان مل جاتا تھا۔‘
اس واقعہ کو سن کر کراچی کے پوش علاقے کلفٹن کے ایک اور ریئل اسٹیٹ ایجنٹ عمران کاٹھیار نے وی ا و اے کو بتایا ’یہ باتیں صرف 8سال پرانی ہیں ۔۔۔آج کلفٹن پل سے تھوڑا پہلے اور کراچی کینٹ اسٹیشن سے آگے سول لائنز میں واقع ’میٹرو ریزیڈینسی میں ایک فلیٹ کی قیمت 3کروڑ روپے سے شروع ہوتی ہے جبکہ اس کے سامنے ہی واقع پرائم ریزیڈینسی میں تیسری اور پانچویں منزل کا فلیٹ ساڑھے چار کروڑ روپے ہے جبکہ ایک فلیٹ جس کے ساتھ چھت بھی ہے وہ پونے سات کروڑ روپے کا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سب سے ’سستا‘ فلیٹ کلفٹن میں ہی واقع ’پارسا‘ اپارٹمنٹ میں دو کروڑ تیس لاکھ اور دو کروڑ چالیس لاکھ روپے میں ہے ۔
موجودہ قیمتیں جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہہ جاسکتا کہ ان میں کب اور کتنا اضافہ ہوجائے گا۔ گلشن اقبال میں واقع پٹیل ہوسپیٹل کے اطرافی بلاک میں 400 اور 600 گز کے مکانات کی قیمت تین کروڑ سے پانچ اور چھ کروڑ تک پہنچی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نیوکراچی، سرجانی ٹاوٴن، گولیماراور دیگر کم یا متوسط آمدنی والے علاقوں میں بھی مکانات کی قیمتیں 30 یا 35 لاکھ سے شروع ہوتی ہیں۔
وفاقی سیکریٹری ہاوسنگ یونس داھاگہ، ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل منظور قادر کاکا، سینئر وائس پریذیڈنٹ پی ٹی سی ایل خاور زمان، پروفیسر نعمان، انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹیکٹ کی چیئرپرسن ممتاز گیلانی، عاطف عثمانی، ایف پی سی سی آئی کے صدر زکریا عثمان،حاجی شفیق الرحمٰن اور شہر کے انتہائی نامور تاجر عقیل کریم ڈھیڈی اس حقیقت سے انکاری نہیں کہ کراچی کی زمینوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اگر شہر کی بدامنی کا مسئلہ حل ہوگیا تو یہاں کا ریئل اسٹیٹ بزنس بھی دبئی جیسا ہی ہوجائے گا۔
ان لوگوں کے مطابق ’آباد‘ ایکسپو میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کا آنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ کراچی کی تعمیراتی صنعت کی نمو سے ملکی معیشت میں بہتری آنے کے امکانات بہت روشن ہیں۔
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ ’کراچی کی تعمیراتی صنعت لاکھوں ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل افراد سمیت انجینئرز اور دیگر ماہرین کو روزگار فراہم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آرہی ہے۔۔۔‘